منشورات مميزة

علماء کرام بیرون ملک کا رخ کیوں کرتے ہیں؟

 علماء کرام بیرون ملک کا رخ کیوں کرتے ہیں؟   بعض بھائیوں کا جواب   أحد إخواننا:   وہ علماء جو بیرون ممالک رہائش پذیر ہیں، ان کے بارے میں میر...

الأحد، 25 أكتوبر 2020

علماء کرام بیرون ملک کا رخ کیوں کرتے ہیں؟

 علماء کرام بیرون ملک کا رخ کیوں کرتے ہیں؟

  بعض بھائیوں کا جواب 

 أحد إخواننا: 

 وہ علماء جو بیرون ممالک رہائش پذیر ہیں، ان کے بارے میں میری ناقص رائے یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر لوگوں کوان کی معاشی حالت کی بہتری، بہتر مستقبل کی کوشش، دیگر فرائض وذمہ داری کی ادائیگی کا احساس، اور سب سے اہم اپنی اولاد کی اعلی تعلیم کے خواب کی تعبیر کی کوشش، وغیرہ، ان کو ملک سے باہر قیام کرنے پر مجبور کی ہوئی ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کے لیے مناسب و بہتر تو یہ تھا کہ اپنے اپنے علاقے میں رہ کر تعلیم وتدریس، تالیف و تصنیف ، نیز منظم دعوت وتبلیغ کی کوشش کو جاری رکھتے لیکن وجوہات کی بنا پر اگر وہ ایسا نہیں کر سکے تو وہ قابل ملامت بھی نہیں ہیں اس صورت میں جب کہ وہ مقامی علماء اور علاقائی لوگوں سے جڑ کر اپنے فرائض کا انجام دیتے رہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ ہمیشہ باہر ہی مقیم نہ رہیں بلکہ ضروریات کی ایک حد تک تکمیل کرنے کے بعد اپنے علاقے میں رہ کر اپنی اپنی قابلیت اور صلاحیت سے دوسروں کو استفادہ کے مواقع فراہم کریں

 آخر:

 کیا کریں!؟ جو باہر رہتے ہیں وہ بھی ملک ہی میں رہنا چاہتے ہیں لیکن باہر جو عزت ملتی ہے، پیسہ ملتا ہے وہ اپنے علاقہ میں نہیں مل پاتا .... خدمت دین کے ساتھ ساتھ روزگار بھی ضروری ہے  ، نہیں تو پیٹ کہاں سے چلے گا؟ تقوی کامل والے کہاں ہیں آجکل بھائی....؟ اگر کوئی تقوی کامل اختیار کر بھی لے تو بھی اولاد کی وجہ سے مجبور ہوجاتا ہے زمانہ بدل گیا ہے بولنے والے بولتے رہیں گے....لیکن عمل کرنے والا ایک بھی نہیں ملے گا  یہی حقیقت ہے! صرف علماء ذمہ دار نہیں ہیں...سماج بھی اتنا ہی ذمہ دار ہے...یہ سماج تو علماء کو کچھ سمجھتا ہی نہیں ...تالی دونوں ہاتھ سے بجتا ہے... اگر آپ بھی پی.ایچ.ڈی اور دکتوراہ کرلیں تو کیا آپ اپنے لئے مناسب جگہ نہیں ڈھونڈوگے؟ یا مکتب میں جاکے درس و تدریس کا کام چالو کر دیں گے اور وہیں سے خدمت دین کا ابھیان چلائیں گے؟ آپکا دل جو جواب دے گا تقریبا سب کا وہی جواب ہوگا! بہت سی چیزیں صرف سوچنے میں اچگی لگتی ہیں لیکن دل چاہ کے بھی اس پر عمل نہیں ہوتا۔ راشن بھی دے دیتا مودی تو بیچارہ مزدور کیوں در در کی ٹھوکریں کھاتا! صرف علماء کو ہی مکمل ذمہ دار ٹہرانا قطعا مناسب نہیں ہے۔ 

 آخر: 

 ہم اپنی ذمہ داریوں سے کیوں پیچھے بھاگتے ہیں ہم ان کے لیے راہیں آسان کریں وہ ضرور یہیں رہیں گے! کوئی وہاں نہیں رہنا چاہتا تھا مجبورا جاتا ہے۔

 آخر: 

 یہ حقیقت ہے کہ  علماء کی بڑی جماعت  بیرون ممالک میں رہتی آئی ہے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، مگر کیوں ؟ وہ اپنے ملک میں کام کیوں نہیں کرتے ؟ مجھے امید ہے کہ اس پہلو پر آپ نے غور کیا  ہوگا کہ علماء بھی انسان ہیں ان کی بھی اپنی ضروریات ہیں، اور ان اخراجات کی تکمیل کے لئے وہ کوشش کرتے ہیں سو جہاں خاطر خواہ وسائل ہوتے ہیں وہاں کام کرتے ہیں، میں نے خود اس کا مشاہدہ کیا ہے اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اساتذہ ایک مدرسے سے دوسرے مدرسے میں منتقل ہوتے ہیں جس کا ایک سبب ذریعہ معاش بھی ہے۔ اور ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو صرف مادی مفاد کی خاطر اپنے وطن کو چھوڑے ہوئے ہیں اور اس صورت میں میں آپ کی کھلے طور پر تائید کرتا ہوں، مگر یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ  علماء کی ایک جماعت ایسی بھی ہے جو  بیرون ملک کے ساتھ ساتھ اپنے ملک میں بھی کام کرتی ہے،  اگر جمعیت اپنا کام بخوبی انجام دے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ شکایت نہیں رہے گی کیونکہ علماء کی کمی نہیں ہے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں فارغ ہوتے ہیں اور  ہر ایک کو باہر جانے کا موقع بھی نہیں ملتا ہے، اور جو لوگ ملک میں موجود  ہیں انہیں بقدر ضرورت وسائل مہیہ ہوں تو وہ یہ کمی پوری کر دیں گے، ان شاء اللہ، چلو مان لیتے ہیں کہ بیرون ممالک سے آپ نے کسی کو بلا بھی لیا تو آپ کے پاس ان کے لئے کیا پلان ہے ؟ اگر وہ مزید کا مطالبہ کریں؟      

         آخر:

 اس میں کوئی شک نہیں کہ دین کی خدمت کرنا علما کے لیے ایک اہم کام ہے اور جہاں ضرورت ہو، یا جہاں سے کام ہوجائے وہی جگہ ان کے لیے بہتر ہے مگر کچھ اور چیزیں کبھی کبھار مانع ہوجاتی ہیں مثال کے طور پر تنخواہ وغیرہ کا مسئلہ  یا دیگر سہولیات کا مسئلہ. بسا اوقات علاقہ میں بے جا تشدد یا  بلا وجہ کے اختلافات ہوجاتے ہیں کبھی کبھار کسی کے ساتھ گھریلو مسائل ہوتے ہیں. ایک اہم چیز یہ بھی ہے کہ ہر انسان کا اپنا تخصص اور فن ہوتا ہے بس اوقات اس کا تخصص اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ گاوں یا علاقہ میں بیٹھ کر کچھ کام کرے مثال کے طور پر ایک شخص محقق ہے۔۔۔ تو کیا اس کے لیے گاؤں مناسب ہوگا؟؟ جہاں پر لائٹ، بجلی، لائبریری اور کتابوں کا اچھا خاصہ انتظام نہ ہو

 وقس على هذا! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الأربعاء، 1 يوليو 2020

حدثنا_وأخبرنا_ایک_مردہ_سنت!

#حدثنا_وأخبرنا_ایک_مردہ_سنت!

جب ہم نے اپنے اساتذہ وشیوخ کی عزت نہیں کی تو اس کا بدلہ ہمیں اللہ نے یہ دیا کہ ہم ان کے علم کی نشر و اشاعت نہیں کر سکے!
ورنہ عرب کے طلبہ وعلماء تا حیات اپنے اساتذہ وشیوخ کی باتوں کو نقل کرتے رہتے ہیں اور حدثنا واخبرنا کہہ کر سلف صالحین کی سنت کو زندہ رکھتے ہیں!

یہ چیز اپنے وطن میں کہیں نہیں ملے گی! کیوں کہ ہم کو اپنے اساتذہ کی بے عزتی نا قدری اور حسد وبغض سے کہاں فرصت ہے!

الخميس، 12 مارس 2020

يا أختاه!

#إلى_أختي_المسلمة

الحجاب طاعة لله عز وجل،
وطاعة لرسول الله صلى الله عليه وسلم،
الحجاب طهارة،
الحجاب عفة،
الحجاب ستر،
الحجاب تقوى،
الحجاب حياء،
الحجاب غيرة،
الحجاب من الإيمان.

والتبرج معصية لله،
ولرسوله صلى الله عليه وسلم،
التبرج كبيرة مهلكة،
التبرج موجب للعن والطرد من رحمة الله،
التبرج من صفات أهل النار،
التبرج سواد وظلمة يوم القيامة،
التبرج نفاق،
التبرج تهتك وفضيحة،
التبرج فاحشة،
التبرج سنة إبليسية،
التبرج فتنة عظيمة،
التبرج طريقة يهودية،
التبرج جاهلية منتنة،
التبرج جبلة حيوانية وفطرة بهيمية،
التبرج تخلف وانحطاط.
التبرج علامة قرب القيامة!!

والمتبرجة جرثومة خبيثة خطيرة ضارة تنشر الفاحشة في المجتمع الإسلامي....
انخرمت مروئتها،وفسدت فطرتها، وانعدمت غيرتها، وذهبت حميتها، وتبلد إحساسها، ومات شعورها، وقل حياءها.
كأنها سلعة رخيصة مهينة خسيسة معروضة لكل من شاء أن ينظر إليها.

قال تعالى: "إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ ..."

مستفاد#
من كتاب الشيخ محمد بن أحمد بن إسماعيل" الحجاب
لماذا؟ " مؤلف "عودة الحجاب"..

*مع حذف وإضافة*

موقف المسلم عند المصيبة

الحمد لله المنفرد بالبقاء والقهر، حمدا متعاقبا على مر الدهر، أحمده على على القضاء والقدر، على الحلو والمر والنفع والضرر، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، موقنا بأنه هو الأحد الذي رفع الكرب وأنزله، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله، الذي هو أسوة لكل مبتلٍ ودليله.

أما بعد:

فإن العبد إذا رأى عن يمينه فلا يرى إلا فتنة، وإذا رأى عن شماله فلا يرى إلا محنة! يرى الدنيا على حسرة وتأسف! ومن ثم يعلم أنها دار بلاء وامتحان؛ يختبر فيه العبد وقتا قليلا؛ لينعم طويلا. وقد قال النبي صلى الله عليه وسلم: "الدُّنْيا سِجْنُ المُؤْمِنِ، وجَنَّةُ الكافِرِ".
صحيح مسلم ٢٩٥٦ •

وهناك مواقف كثيرة يجب على العبد المصاب أن يأتي عليها ويقف عندها وسنذكر بعضها:

*الموقف الأول:* بل الأعظم والأجل : أن يصبر عقب المصيبة. ومعنى الصبر: أن يحبس قلبه فلا يتسخط ولا ييأس من رحمة الله، ويحبس لسانه فلا يشكو ولا يتذمر ولا يتشاءم ولا ينحو، ويحبس جوارحه فلا يلطم خده، ويخمش وجهه، ولا يشج رأسه، وينتف شعره، ولا يدعو بالويل، ودعوى الجاهلية. فلا دواء أنفع لعلاج المصاب وتسليته من الصبر؛ لذلك يقول النبي صلى الله عليه وسلم مبينا أهمية الصبر عند أول الأمر: "إنَّما الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الأُولى".
صحيح البخاري ١٢٨٣ •

*الموقف الثاني:* أن يدعو بالأدعية المأثورة كَ "إنا لله وإنا إليه راجعون اللهم أجرني في مصيبتي وأخلف لنا خيرا منها"
فقد قال النبي صلى الله عليه وسلم عن فضل هذا الدعاء: "اللَّهُمَّ أْجُرْنِي في مُصِيبَتِي، وَأَخْلِفْ لي خَيْرًا منها، إلّا أَجَرَهُ اللَّهُ في مُصِيبَتِهِ، وَأَخْلَفَ له خَيْرًا منها".
صحيح مسلم ٩١٨ •

ولمَ لا؟ فالله يقول: ﴿وَبَشِّرِ ٱلصَّـٰبِرِینَ......أُو۟لَـٰۤىِٕكَ عَلَیۡهِمۡ صَلَوَ ٰ⁠تࣱ مِّن رَّبِّهِمۡ وَرَحۡمَةࣱۖ وَأُو۟لَـٰۤىِٕكَ هُمُ ٱلۡمُهۡتَدُونَ﴾. [البقرة١٥٥، ١٥٧]

ووالله سيشعر المؤمن براحة قلبية وطمأنينة نفسية ولذة إيمانية وسكونٍ داخلي حينما يقول بملء قلبه وجوارحه : ﴿إِنَّمَاۤ أَشۡكُوا۟ بَثِّی وَحُزۡنِیۤ إِلَى ٱللَّهِ﴾.
[يوسف ٨٦]

*الموقف الثالث:* أن يعلم علم اليقين أن ذلك كله من قدر الله وقضائه فلا مرد لذلك ولا مفر منه، وأن فيه حكمة لا يعلمها إلا الله، يقول تعالى: ﴿وَلَنَبۡلُوَنَّكُم بِشَیۡءࣲ مِّنَ ٱلۡخَوۡفِ وَٱلۡجُوعِ وَنَقۡصࣲ مِّنَ ٱلۡأَمۡوَ ٰ⁠لِ وَٱلۡأَنفُسِ وَٱلثَّمَرَ ٰ⁠تِۗ وَبَشِّرِ ٱلصَّـٰبِرِینَ﴾.
[البقرة ١٥٥]
﴿وَنَبۡلُوكُم بِٱلشَّرِّ وَٱلۡخَیۡرِ فِتۡنَةࣰۖ وَإِلَیۡنَا تُرۡجَعُونَ﴾.
[الأنبياء ٣٥]
وقال:﴿أَحَسِبَ ٱلنَّاسُ أَن یُتۡرَكُوۤا۟ أَن یَقُولُوۤا۟ ءَامَنَّا وَهُمۡ لَا یُفۡتَنُونَ﴾ [العنكبوت ٢] ﴿وَلَقَدۡ فَتَنَّا ٱلَّذِینَ مِن قَبۡلِهِمۡۖ فَلَیَعۡلَمَنَّ ٱللَّهُ ٱلَّذِینَ صَدَقُوا۟ وَلَیَعۡلَمَنَّ ٱلۡكَـٰذِبِینَ﴾ [العنكبوت ٣]

وفي الحقيقة إن هذا لأعظم وقت لامتحان قوة إيمان المؤمن بالقدر خيره وشره، وهذا الموقف ميزان لتمييز القوي من الضعيف فبقدر رسوخ الإيمان وإحكامه ينزل البلاء، يقول النبي ﷺ "أشدُّ الناسِ بلاءً الأنبياءُ ثم الأمثلُ فالأمثلُ، يُبتلى الرجلُ على حسبِ دِينِه، فإن كان دِينُه صلبًا (وفي رواية فمن ثَخُنَ دينُه) اشتدَّ بلاؤُه، وإن كان في دِينِه رِقَّةٌ، ابتُلِيَ على حسبِ دِينِه، (وفي رواية ومن ضعُف دينُه ضَعُف بلاؤه) فما يبرحُ البلاءُ بالعبدِ حتى يتركُه يمشي على الأرضِ ما عليه خطيئةٌ"
أخرجه الترمذي (٢٣٩٨) وغيره وصححه الألباني في صحيح الجامع (٩٩٣)

وقال: "إنَّ عِظمَ الجزاءِ مع عِظمِ البلاءِ، وإنَّ اللهَ إذا أحبَّ قومًا ابتَلاهم، فمَن رَضي فله الرِّضى، ومَن سخِط فله السَّخطُ"
أحرجه الترمذي
وحسنه الألباني في صحيح الترمذي ٢٣٩٦ •


*الموقف الرابع:* التأمل في حال من أصابه بلاء أشد وأعظم مما أصيب به فهذا الموقف سيخفف عنه ما يجده من برحاء المصيبة وشدتها، وليتذكر أعظم مصيبة حلت بكل مسلم على الإطلاق وهي وفاة سيد الأنبياء والمرسلين نبينا محمد ﷺ وليتعظ من أولئك الصحابة الذي صبروا وتصابروا في ذلك الموقف الهائل الرهيب....

*الموقف الخامس:* أن يعلم أن تلك المصيبة أيضا نعمة عظيمة وفيها خير وبركة، كيف ولا؟! وبها ترفع درجاته وتكفر سيئاته، سبحان الله!
يقول النبيﷺ: "إذا أرادَ اللَّهُ بعبدِه الخيرَ عجَّلَ لَه العقوبةَ فِي الدُّنْيا..."
أخرجه الترمذي (٢٣٩٦)
وصححه الألباني في صحيح الترمذي ٢٣٩٦

وأعظم حديث في هذا الباب ما أخرجه البخاري مرفوعا عن النبي ﷺ قال: "ما يُصِيبُ المُسْلِمَ، مِن نَصَبٍ ولا وصَبٍ، ولا هَمٍّ ولا حُزْنٍ ولا أذًى ولا غَمٍّ، حتّى الشَّوْكَةِ يُشاكُها، إلّا كَفَّرَ اللَّهُ بها مِن خَطاياهُ".
صحيح البخاري ٥٦٤١ •

 عن جابر بن عبدالله: أنَّ رَسولَ اللهِ ﷺ، دَخَلَ على أُمِّ السّائِبِ، أَوْ أُمِّ المُسَيِّبِ فَقالَ: ما لَكِ؟ يا أُمَّ السّائِبِ، أَوْ يا أُمَّ المُسَيِّبِ تُزَفْزِفِينَ؟ قالَتْ: الحُمّى، لا بارَكَ اللَّهُ فِيها، فَقالَ: لا تَسُبِّي الحُمّى، فإنَّها تُذْهِبُ خَطايا بَنِي آدَمَ، كما يُذْهِبُ الكِيرُ خَبَثَ الحَدِيدِ.

صحيح مسلم ٢٥٧٥ •


الله أكبر! يقول بعض السلف: لولا المصائب لوردنا القيامة مفاليس!

قد ينعم الله بالبلوى وإن عظمت
ويبتلي الله بعض القوم بالنعمِ

*الموقف السادس:* وأخيرا ليعلم أن كل ما ورد في علاج المصاب من نصوص فهو يرجع إلى أصل عظيم: وهو أن يتحقق العبد أن نفسه وأهله وماله وولده في الحقيقة مِلكٌ لله عز وجل قد جعله عند العبد عارية فإذا أخذه منه فإنما أخذ ملكه وعاريته من المستَعير ، وأيضا فإن ذلك الملك محفوف بعدَمَين : عدَم قبله وعدَم بعده. وملك العبد له متعة معارة في زمن يسير وأيضا فإنه ليس هو الذي أوجده عن عدَمٍ حتى يكون ملكه الحقيقي ولا هو يستطيع حفظه من الآفات فليس له فيه تأثير ولا نفوذ ، وأيضا فإنه متصرف فيه بالأمر تصرف المملوك المأمور المُنهى ، لا تصَرُّفَ المالك ، فلا يجوز أن يتصرف فيه إلا كما يرضى مالكه الحقيقي سبحانه و تعالى.....

فيا أيها المؤمن كلما نزل بك البلاء تجلد واصبر وأظهر الرضا وإياك أن تضعف أمام أهلك وولدك وخاصتك لأن ذلك يضعفهم وينزل الخوف في رُوعهم بل اعطهم الأمان وكن أنت المعَزِّي لهم ثم إذا خلوت بربك فبث همك وأرسل دمعتك وأخرج أحزانك!
وإذا اشتدت بك الحال فاهرع إلى الصلاة فهي قرة العين وعفر جبهتك بالأرض ساجدا خاشعا وابك سائلا ربك أن يرفع بلاءك وأن يصبرك يقول تعالى: واستعينوا

تأمل أيها المصاب كما أن الله قد أخذ منك وابتلاك فقد منحك الكثير من النعم وحفظ عليك أنواعا من الخيرات التي تجلب لك السرور والسعادة وأعظم ذلك نعمة الإيمان والهدى ومعرفة الحق فإن حمدت الله على ذلك كل ثانية ما وفيت حمده سبحانه وتعالى
فقابل بلاءك بالرضا والشكر وقل الحمد لله على كل حال فهذا من كمال الإيمان تبلغ به منزلة الأولياء والأصفياء وحين يمتلئ قلبك وروحك بنور الإحسان والرضا واليقين وتتعلق جوارحك وحركاتك بالله .....
هذا!
وفي الختام نسأل الله أن يفقنا للصبر عند أول صدمة ...

مقال مستفاد من كتب لم نذكرها.... لأنه كان في الأصل خطبة...

حالنا مع لسان ديننا


إنني أخشى أن ينقص من قلبك حب الله والرسول والإيمان بهما!!
فلا أريد أن تفضل الإنجليزية على العربية; حتى تخرج عقب صلاة العصر مع سرعان القوم، وتعدو عدوا سريعا كأن نعيم الجنة تزلت في الأرض، وتجري خوفا أن تحرم من التنعم بها!.

كيف تركت القرآن والحديث، وفضلت تعلم كتب اليهود، والنصارى، والكفار، وأعداء الإسلام، والمسلمين؟! أوصلت اللغة الإنجليزية إلى مثل هذه القمة العليا؟! من متى؟ وكيف؟... هل بلغت لغة من لا يعرف كيفية الاستنجاء إلى هذا المبلغ من الحلاوة والفضيلة! ؟
عجبا!!

والله إنني أخاف خوفا شديدا أن ينجح أعداء الله في افتراسك بنصب أشراك الغزو الفكري! يا الله! كاد القلب ينشق! كيف تظهر عليهم، والإيمان في فؤادك يتمزق؟.

قال الله: "ولا تنهنوا ولا تحزنوا وأنتم الأعلون إن كنتم مؤمنين".
كيف يبقى الإيمان في قلبك، وقد هجرت القرآن والسنة; وكيف لا تهجرهما وأنت هدمت الباب الذي تلج منه إليهما! ; ألا وهو علوم اللغة العربية...
كيف ترد شكوك الأعداء وشبهاتهم، وأنت خاوي الذهن كيف تخدم الإسلام وأنت أجوف!!.

تدعي بأنك سلفي وما أدراك ما السلفية؟! ... كلا والله لا يخلق بك أن تنتمي إليها - وأنت لست قائما عليها كافة - ولا شروى نقير وقطمير!
تعد نفسك في زمرة ورثة الأنبياء... هيهات هيهات.... كم تملك من ميراثهم!؟.

ما أشنع الأمر أن تعلق الحائطية الأردية في أسبوعين، والعربية بعد شهر كامل أو أكثر!. بل وقد لا يشبع بطنك فتوشح جدار غرفتك، وتزينه بكلماتك المعجزة التي تصور أنك أكبر كاتب ألمعي، وأديب عبقري على وجه الأرض!!...
ما أقبح الحال أن تعقد حفلة المشاعرة بالأردية، وترمي العربية في المزبلة!!. بل وبعد كل هذا تشعر بأنك متعطش إلى المزيد; فتروي غلتك بعقد حفلة أخرى في الغرفة!.

وعندما تحين نوبة الخطابة الأسبوعية في اللغة الأردية تطير في السماء، وتهز المجلس، وتطربهم. كالأسد تصم آذانهم بزئيرك، وتخطف أجسادهم بحركات يديك، وتعمي أبصارهم بشعلة عينيك.
أما إن كانت في اللغة العربية فسلام عليها! ...
كأنها جبل سقط على رأسك فاسثقلته... تقف بالمنصة حائرا مذعورا تصير كالقط; لا يسمع صوتك بل تعي وتتقعقع... وتختلط عليك الجمل حتى نصوص القرآن والسنة لا تقدر على أداء مخارجها وإظهار حركاتها فطالما يتغير المعنى وينحرف إلى معنى آخر. كأنك تصحفها... والعياذ بالله!

شد ما يقلقني هذا الموقف المبكي الحزين وتؤسفني هذه الحالة المؤلمة.!!
على الإنسان أن يحفر الأرض ويقبر فيها قبرا لا حياة بعده!!
أراك تحرك شفتيك كأنك تقول : كلام قاسي لا والله ولكن الحق كالفاس!
لقد أحسن من قال : إن الحق ثقيل مريء وإن الباطل خفيف وبيء..
من اليوم تدارك ما فعلت في زمن غبر وإلا ستحوجني إلى م لا يتأخر...... 

هل تجد مثلها؟

*هل تجد مثلها*

كلا والله! فإن من ازدانت بصفات الكمال جديرة بأن تتنزه عن المثيل وإن من تزينت بخلال الحسن والجمال خليقة بأن يفتتن بها الناس قاطبة

(أراك تتمتم شيئا؛ لعلك تريد معرفتها، مهلا! حتى نمتعك قليلا)

أما شكلها فقد عجزت أساليب الشعراء والأدباء عن وصفه .... فتان خلاب...لا يشبع الزائر من التقاط صورها فتراه مرة يلتقط من جانب وأخرى من جانب؛ حتى لا ينساها طوال عمره،

وأما لونها فأبيض ناصع لا يشوبه أي سواد؛ كأن اللبن أفيض عليها.
وأما حسن هندامها فحدث عنه ولا حرج! يدهش الناظر من رشاقة قوامها و

لا يشتكي منها قصر ولا طول

وأما جسمها فيا الله! تفوح منه عطور الورود والرياحين، إذا شممتها أحسست عرف الجنة، وإذا هبت الريح حول جنباتها آضت إلى نسيم الصبح الناعش فتملأ الأرجاء طيبا ذكيا

فتن بها الصغار والكبار والرجال حتى النساء! بل افتدين لها النفس والنفيس.
والعجب العجاب أن جمالها شب العلماء والعباد المتبتلون وكانوا أكثر عشقا بها... فما السحر الذي أودع في هذه المخلوقة وأي مغناطيس هذا الذي جذب هؤلاء. حتى إنهم يودون لو يضمونها إليهم ثم يشدون عليها إلى أن تفيض أرواحهم ويفنوا فيها....

الكل يريد وصالها ولقاءها ولكن غيرتها ونخوتها لا تسمح بأن تعرض عرضها على كل من هب ودب إنها تضن على شرفها أكثر من صاحباتها وزميلاتها وإن لم تعتبرهن أترابا لها فتراها ترد جل خطبائها وتلغي طلباتهم.

تختار عاشقا يظهر من أسارير وجهه أنه سيخلص لها المودة ويموت في حبها ويحيى بحبها يدرك أسرارها وخباياها ويعرف ذات نفسها وسريرة قلبها من غير أن تبثها، يغار عليها ويعظم حرمتها ويحسبها قرة عينيه ووقيد ناظريه.

فهذا هو الذي ينعم بجوارها ويتلذذ بجانبها فكأنه ظفر بحور العين وهي دنياه وأخراه
وما له عنها حم ولا رم ولا له منها بديل ولا عديل، يسود وجهه إن فارقها زمنا، ويشحب جسمه إذا نأى عنها طويلا يتمنى لو أخلد في هذا الحب الطاهر الذي ليس فيه شائبة من شهوة أو غريزة أبدا يتمنى الخلود على الأقل حياته الكاملة ولكن يسبقه القدر وينقطع عنها بعد مدة محدودة .

فانظر إلى سعة صدرها ورحب باعها كيف تتفضل على كل رقيبها المخلص ولا تخيب أمله ورجاءه وتعطيه فرصة لإطفاء نار الهوى وإخماد لظاها قبل أن تودي به.

فياله من حب شريف! وياله من عيش لذيذ! ما أطيب صفوته ترى الناس إنا يحسدون على حبيبها أو يغتبطون به ذلك هو السعيد حقا وقد خاب من لم يهده الحظ التاعس إلى وصالها۔

آهٍ على شقاءه!

أبلغوه: أن الحب يستقضي أن يخضع بين يديه ؛ هكذا الدنيا إن ارتميت بنفسك على قدميها مرة سعدت ما دمت حيا..

أخالك تتهامس :"حلم مستحيل"!!

لتبك على عقلك البواكي إنها جامعتك يا أبله "الجامعة السلفية"

فهي هي هل تجد مثلها!؟

هذه القصة أزلية و ستكون أبدية ما لم تتبدل الأرض غير الأرض والسماوات..

الثلاثاء، 10 مارس 2020

الفرق بين طلاب السلف وطلاب الخلف

#الفرق_بين_طلاب_السلف_وطلاب_الخلف

# كانوا يعيشون بالكفاف ويعتمدون على القناعة. فيجدون سعادة روحانية وإن كانوا أشقياء في الظاهر.

# ونحن نعيش عيشة لم يعشها الملوك على ما مضى من التاريخ، ولا نجد حقيقة السعادة لأننا فقدنا أسبابها.

# كانوا لا يأكلون ولا يشربون إلا بالقدر الذي يسد جوعتهم وغلتهم.

# ونحن مشهورون بالبطنة والشره ونستمر في الابتلاع إلى أن نتيقن بسد الحلق.

# لذلك كانوا يتمتعون بالنشاط والخفة والقوة الجسمية ويقل ذهابهم لقضاء الحاجة وللعلاج الطبي فما كانت تصيبهم الأمراض والأسقام إلا قليلا، بل في أواخر أعمارهم غالبا، وذلك وفر لهم الوقت الكثير.

# ولكن تسرب الكسل والخمول في أجسامنا، وكثر قضاء حاجاتنا، وزيارتنا للمستشفيات. وصرفنا المال والوقت للعلاج على أيدي الأطباء.

# فكان لا يقرع النوم باب أعينهم إلا قليلا. 

# ونحن لثقل بطوننا ننام ثلثي الوقت من أربع وعشرين ساعة.

# ولنشاط جسومهم كانوا يسهرون الليالي على التوالي.

# ولكن هيهات هيهات فلم نستطع إلى ذلك سبيلا.

# كانوا لا يأخذون من الدنيا إلا ذلك النصيب الذي لا حياة إلا به، ويُحسنون بما بقي على ذووي الحاجة. فكانت أشغالهم الدنيوية ضئيلة قليلة.

# أما نحن فيضيع معظم أوقاتنا في إعداد الطعام وتنظيف الملابس وتطهير الأبدان وترجل الشعر والتعهد بحسن المنظر وإن كان الباطن نجسا.

# فكانوا يجدون فراغا طويلا في اليوم والليلة، ويغتنمونه في العكف على القراءة والمطالعة أو الكتابة والمباحثة.

# ونحن مقيدون بأغلال الأشغال طوال اليوم واليل

# كانوا مخلصين في طلبهم فاجتهدوا طول السنة، كما أنهم كانوا أحرارا في سبيل طلب العلم فما كان هناك ضغط الاختبارات وخوف الفشل في المسابقات.

# ونحن نشتغل بالعلم عندما يسيطر علينا خوف الاختبارات ثم نعود إلى حيث كنا من اللهو واللعب طول السنة.

# بل كانوا يطلبون العلم طول العمر لأنه ما كانت لديهم هذه القوانين المدرسية أو الجامعية، وكانت الوثيقة التي يعتمدون عليها في الشهادة بالرسوخ وعلو الكعب هي "الجرح والتعديل" وأنت تعرف قواعدهما وضوابطهما!

# ولكن يصير أحدنا عالما بنيله شهادة عالمية في اثنتي عشرة سنة أو علامة بإحرازه شهادة الدكتوراة في عشرين سنة وهما شهادتي الزور والباطل ، ثم بعد ذلك يسلم رجليه إلى الرياح الأربعة ويعتقد أنه لا حاجة به إلى أكثر مما طلب!

# كانوا يحضرون الحلق والدروس ويطلبون العلم على أجل العلماء لذلك كانوا يكثرون الأسفار والرحلات، كانوا يفهمون معنى: "من تفقه من بطون الكتب ضيع الأحكام" 
و "من كان شيخه كتابه ، كان خطؤه أكثر من صوابه" وقول ابن مسعود رضي الله عنه:
( ولا يزال الناس بخير ما أخذوا العلم عن أكابرهم وعن أمنائهم وعلمائهم فإذا أخذوه عن صغارهم وشرارهم هلكوا) اھ . وإذا أبى الله أن يصطفي حاملي وحيه إلا في الأربعينات فعار لهذا العلم الذي هو ميراث الأنبياء أن يرثوه الأصاغر والمتطفلون! هذه ذلة وخزي لهذا الكنز الغالي الثمين الشريف المطهر.

# وصار التعلم في زماننا مقيدا بالفصول والصفوف ندرس وقتا معينا، ثم يذهب الباقي سدى ويضيع في أدراج الرياح! ثم إننا نتعلم على أيدي بعض الشيوخ المخصوصين وللأسف يكون أكثرهم جاهلين. والله إن العلم أجل وأعظم من أن يشهد به الجاهلون وأشرف وأعز من أن يذكر به السفهاء وأطهر وأقدس من أن يدنس بعزوه إلى الهمل من دهماء الناس.
وكذلك لا نتشرف بأخذ العلم عن عدد كبير من العلماء والأئمة بالرحلة والسفر فذاك باب مغلق! فإنا لله وإنا إليه راجعون. 

# في معظم الأوقات كانوا يتعلمون لدى الشيوخ في المساجد بيوت الله التي تنزل فيها الرحمة والبركة والسكينة والتي هي أشرف الأمكنة على وجه الأرض، لكن أحيانا كانوا يدرسون عليهم في البيوت لعذر مبرر.

# ولكن بالرغم مما وردت فضائل كثيرة في نصوص القرآن والسنة للمساجد تركناها وهجرناها فصارت مخصوصة للصلاة فقط لا للعلم الذي يعرف به كيفية أدائها!!!

والله إنني لأجزم وأقطع بأننا لم نشعر بلذة العلم التي كان السلف شعروا بها ولم نصل إلى روحه مثلما وصلوا إليها إلا لهذه الأسباب!!

ولله در مالك رحمه الله حيث قال: "لن يصلح آخر هذه الأمة إلا بما صلح به أولها"

#هيا_للعودة_إلى_ما_كان_عليه_السلف

إعداد: 
عبد العزيز بن محمد يوسف بن محمد عمر المالدهي

للقراءة في الفيسبوك اضغط:
الفرق بين طلاب السلف وطلاب الخلف

الجمعة، 21 فبراير 2020

خطیب جمعہ کے لئے بعض اہم ہدایات وتنبیہات


خطیب جمعہ کے لئے بعض اہم ہدایات وتنبیہات

١: منبر پے بیٹھنے سے پہلے سلام کرنے کے تعلق سے ہمارے علم میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے ۔۔۔۔ واللہ اعلم، اگر ہے تو علی الرأس والعين.

٢: اذان کا جواب دیں، درود شریف اور ختم اذان کی دعا پڑھیں

٣: پھر کھڑے ہوکر خطبہ حاجہ پڑھنے لگیں اس کے کلمات ہیں: "إن الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا من يهده الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله" ﴿یَأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِۦ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسۡلِمُونَ﴾ ﴿یَـٰۤأَیُّهَا ٱلنَّاسُ ٱتَّقُوا۟ رَبَّكُمُ ٱلَّذِی خَلَقَكُم مِّن نَّفۡسࣲ وَ ٰ⁠حِدَةࣲ وَخَلَقَ مِنۡهَا زَوۡجَهَا وَبَثَّ مِنۡهُمَا رِجَالࣰا كَثِیرࣰا وَنِسَاۤءࣰۚ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ ٱلَّذِی تَسَاۤءَلُونَ بِهِۦ وَٱلۡأَرۡحَامَۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلَیۡكُمۡ رَقِیبࣰا﴾ ﴿یَأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَقُولُوا۟ قَوۡلࣰا سَدِیدࣰا ﴾ ﴿یُصۡلِحۡ لَكُمۡ أَعۡمَـٰلَكُمۡ وَیَغۡفِرۡ لَكُمۡ ذُنُوبَكُمۡۗ وَمَن یُطِعِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِیمًا﴾ أما بعدُ: فإن خير الحديث كتاب الله وخير الهديِ هديُ محمد ﷺ وشر الأمور محدثاتها وكل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة وكل ضلالة في النار 
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم (اس کے بعد کچھ آیات تلاوت کیجئے)

٤: آپ سورہ ق تلاوت کرسکتے ہیں لیکن اگر پڑھنا ہے تو پوری سورت پڑھیں!! یہی سنت ہے نہ کہ آدھی سورت پڑھیں! دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ سورہ ق پڑھتے ہیں تو سامنے والے اس کے معانی ومفہوم نا کے برابر ہی سمجھ پائیں گے! اسلئے بہتر یہی ہے کہ دوسرے آیات جو موضوع کے متعلق ہیں ان کی تلاوت کریں تا کہ آپ خطبہ میں ان کا ترجمہ کرسکیں! لیکن اگر سورہ ق پڑھنا ہے تو اس کا ترجمہ بھی ضروری ہے (ہاں! ایک دن خاص کرلیجئے کہ اس خطبہ میں صرف سورہ ق ہی پر خطبہ دیں گے اور ایک ایک آیت پڑھ پڑھ کر اس کا ترجمہ و تفسیر کریں گے تو بہہہت ہی بہتر ہوگا)۔

٥: آپ حمد ونعت یا شعر و اشعار پڑھتے ہیں جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھنا ثابت تو نہیں ہے لیکن اگر موضوع کے ٹھیک مطابق کچھ چند اشعار پڑھتے ہیں تو کوئی بات نہیں لیکن اس پر زیادہ ٹائم نہ دیں صرف ایک دو منٹ!!! اور ہر دن نہ پرھیں یہاں زیادہ سے زیادہ نصوص قرآن وحدیٹ پڑھیں تاکہ سامعین کو تعلیم حاصل ہو۔ اور یہی خطبہ کا اصل مقصد ہے۔

٦: آپ خطبہ حاجہ کو، یا کبھی کبھار سور دیکر گنگنا کر خطبہ دیتے ہیں! ایسا نہ کریں! صرف قرآنی آیات کو سُور اور نغمہ کے ساتھ پڑھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تو انکے چہرے لال پیلے ہوجاتے غصہ سے انکی آواز بلند ہوجاتی اور ان کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں اور غصہ زیادہ ہو جاتا گویا وہ لشکر کو ڈرانے والے ہیں" (مسلم) 
حرام تو نہیں کہا جاسکتا! لیکن نبی کی سنت اولی واعلی ہے۔

٧: اس کے بعد آپ سیدھے موضوع پے آئیں، آپ پتا نہیں پھر دوبارہ بنغلہ زبان میں حمد وصلاۃ پڑھتے ہیں اور سامعین کو الحمد للہ کہنے کو کہتے ہیں! دیکھئے یہ سب حرام تو نہیں ہے لیکن اللہ کے رسول کی سنت زیادہ افضل اور اعلی ہے اسے ہمیں اختیار کرنا چاہیے۔ اور اس میں وقت کی بھی بچت ہے جس سے آپ موضوع کی وضاحت اچھی طرح کرسکتے ہیں۔ 

٨: خطبہ کا اصل مقصد ہے وعظ ونصیحت تعلیم وتربیت اور ترغیب وترہیب ، تزکیہ نفس لوگوں کو شرک وبدعات کی جانکاری دینا تاکہ وہ ان سے پچے رہیں۔

٩: دیکھا جاتا ہے کہ آپ شاید زیادہ تیاری کرکے نہیں آتے ہیں، موضوع بھی شاید کہ کبھی کبھار منتخب کرتے ہیں! دیکھئے چچا یہی ایک دن تو ہمیں ملتا ہے عوام کے سامنے کچھ باتیں رکھنے اور بولنے کے لئے برائے مہربانی اسے غنیمت جان کر اس کا بھر پور استعمال کریں، زیادہ سے زیادہ قرآن وحدیٹ پڑھیں اور ان کا ترجمہ وتفسیر کریں، احکام سکھائیں، افسوس تو اس وقت ہوتا ہے کہ جب دیکھتا ہوں کہ ہم جیسے مولوی رہتے ہوئے بھی لوگوں کو صحیح سے سنت کے مطابق وضو اور نماز پڑھانا نہیں سکھاتے ہیں، آپ ﷺ تو منبر پر دو رکعات نماز پڑھ کے لوگوں کو سکھاتے تھے کہ ایسے ہی نماز پڑھو، لوٹے میں پانی لے کر لوگوں کی نظروں کے سامنے وضو کرتے تاکہ صحابہ اسی طرح وضو کریں!۔ (بخاری و مسلم)

١٠: آپ کو یہ بھی بتا دوں دونوں خطبہ (خطبہ اولی خطبہ ثانیہ) میں تقریر کرنا نبی کی سنت ہے خطبہ اولی میں کچھ بولئے پھر خطبہ ثانیہ میں بھی کچھ بولیں ایسا نہیں کہ پہلے خطبہ حاجہ پڑھکے بیٹھ جائیں اور خطبہ ثانی میں تقریر کریں! نہیں! ایسا نہیں کرنا چاہئے یہ سنت سے ثابت نہیں ہے۔

۱١: اور یہ بھی جان لیجئے خطبہ اولی میں ہی آپ کو خطبہ حاجہ کے کلمات بولنے ہیں!!!! اس کی طرف بہت دھیان دیجئے گا ، صحیح حدیث میں صرف اتنا کہا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف شروع میں خطبہ حاجہ پڑھتے تھے ، خطبہ ثانیہ میں دوبارہ ان کلمات کو دوہرانا ثابت نہیں ہے۔ اللہ اعلم۔۔۔ اگر کوئی صحیح حدیث ہمیں مل جائے تو سر تسلیم خم کریں گے ان شاء اللہ ۔

۱٢: اور یہ بھی جان لیجئے کہ خطبہ اولی ختم کرنے کے لئے کوئی بھی دعا یا آیت ثابت نہیں ہے، مطلب آپ تقریر کرتے کرتے ہی مناسب وقت میں بیٹھ جائیں گے۔

۱٣: پھر بیٹھنے کے بعد بھی کوئی دعا یا کچھ بھی پڑھنا ثابت نہیں ہے بس ایسے ہی خاموش تھوڑی دیر بیٹھے رہیں گے (نسائی)

١٤: پھر جب خطبہ ثانیہ کے لئے کھڑے ہوں گے تو ڈائرکٹ موضوع پے بات کریں گے نہ کہ پھر سے حمد و صلاۃ پڑھیں گے!! (نسائی)

۱٥: خطبہ ثانیہ میں بھی کچھ بولیں۔

۱٦: اور یہ بھی جان لیجئے کہ تقریر ختم کرنے کے لئے صرف یہی دعا ثابت ہے ابن عمر سے : "أقول هذا وأستغفر الله لي ولكم" سلسلة الأحاديث الصحيحة للألباني (رقم: ٧١٩) 

١٧: کبھی کبھار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا بھی کرتے تھے لیکن کوئی خاص وقت نہیں جب بھی چاہتے شروع میں، بیچ میں، اخیر میں۔ کوئی متعین وقت نہیں ہے دعا کرنے کے لئے، متعین کرنا بدعت ہے! لیکن حالات کے اعتبار سے دعا کرنا افضل ہے۔ (بخاری و مسلم) اور خطبہ شروع کرنے سے لیکر سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے تک اللہ تعالی دعا قبول کرتا ہے (بخاری مسلم ابو داود ونسائي)

١٨: اخیر میں سلام کرنا بدعت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔

١٩: خطبہ کو درمیانی رکھنا سنت ہے نہ زیادہ لمبا نہ زیادہ مختصر۔ (مسلم، ابو داود)

۲٠: نماز کو لمبی کرنا سنت ہے (مسلم)

والله تعالى أعلم بالصواب

عبد العزيز بن محمد يوسف بن محمد عمر المالدهي 
السنة الثانية لكلية الحديث الشريف بالجامعة السلفية ببنارس، الهند

الجمعة، 31 يناير 2020

لماذا تخاف!؟ ارفع رأسك فأنت مسلم!







الخوف من الأعداء شماتة!
وكُلِّ المصائب قد تَمُرُّ على الفتى ** فتَهونُ غيرَ شماتةِ الأعداءِ

حينما نستيقظ في الصبح أول صوت يعانق مسامعنا هو: "تخويف وتهديد" وأول صورة تقع عليها أبصارنا هي: "الفتن والشرور" وأول ما يهز مشاعرنا ويخلع عواطفنا هو: "الموت الوشيك"

نقلب أوراق الجريدة وقلوبنا تخفق خفقان من صعق بجلجلة الرعد فنتراجع بمجرد سماع حفيفها لأنه يخبر عما يحتوي من أخبار القتلى والجرحى، ونتصفح وسائل الإعلام وأيدينا ترتعش ارتعاش من اكتسح به تيار الكهرباء فنعود القهقرى بمجرد مرور نظر عابر على المنشورات فإنه يؤذن بما فيها من صور الانفجارات وفيدوهات إطلاق البنادق..... وكأن الحروف بعينها تندب على هذه المأساة وتبكي الجمل وتنوح نواح الثكلى المفجوعة....ترتجف الكلمات وترتعد كأن بعضها يشق بعضها....!!!!

وأكثر من وقع في شرك هذه الفتن وكان لقمة سائغة في حلق الفساد هم - لاشك- المسلمون!!

استغل الأعداء نقاط ضعفهم فعمدوا إلى سلاح أقوى وأمضى ألا وهو "التخويف" فإن الإنسان إذا خاف وتملك عليه الرعب جبن وخارقت قواه أمام الشدائد والأزمات واستسلم لضعفه ويأسه، توصد عليه أبواب النجاة فيعيش باقي حياته وهو يتجرع غصصها على مضض حتى يتمنى على الله أن يموت على فراشه لا صيدا في شبكة مكايد الأعداء!!!

هكذا خيم على كل منا ظلمة الخوف والفزع وسيطر عليه اليأس والقنوط! نتيجة ضعف الإيمان وتقوى الله سبحانه وتعالى
الخوف من الأعداء ليس من صفات المؤمنين بل إنه صفة المنافقين الجبناء

المؤمن لا يخاف إلا الله:
{ فَٱللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخۡشَوۡهُ إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِینَ﴾ [التوبة ١٣].
فلا تخف يا أخي!
ألست مسلما تؤمن بالله وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة؟! فلماذا تخاف من الأعداء؟! أما قرأت قول الله تعالى: ﴿إِنَّ ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ وَأَقَامُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَوُا۟ ٱلزَّكَوٰةَ لَهُمۡ أَجۡرُهُمۡ عِندَ رَبِّهِمۡ وَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡهِمۡ وَلَا هُمۡ یَحۡزَنُونَ﴾ [البقرة ٢٧٧]

قد يخاف الإنسان ويفزع لأن ﴿ٱلۡإِنسَـٰنَ خُلِقَ هَلُوعًا (١٩) إِذَا مَسَّهُ ٱلشَّرُّ جَزُوعࣰا (٢٠) وَإِذَا مَسَّهُ ٱلۡخَیۡرُ مَنُوعًا(٢١) ولكن ألست من الذين استثناهم الله من ذلك فقال ﴿إِلَّا ٱلۡمُصَلِّینَ (٢٢) ٱلَّذِینَ هُمۡ عَلَىٰ صَلَاتِهِمۡ دَاۤىِٕمُونَ (٢٣) .... وَٱلَّذِینَ هُم مِّنۡ عَذَابِ رَبِّهِم مُّشۡفِقُونَ (٢٧) إِنَّ عَذَابَ رَبِّهِمۡ غَیۡرُ مَأۡمُونࣲ (٢٨)﴾ [المعارج ١٩-٢٣ و ٢٧-٢٨]؟؟؟

ألست من أولياء الله والله يقول: ﴿أَلَاۤ إِنَّ أَوۡلِیَاۤءَ ٱللَّهِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡهِمۡ وَلَا هُمۡ یَحۡزَنُونَ﴾ [يونس ٦٢] ؟!
كيف تخاف وأنت تعلم أنه ليس في يد العدو حياة ولا موت لا يقدر على أي حركة من تلقاء نفسه ولا يملك لنفسه ضرا ولا نفعا.

لماذا تخاف وكتاب الله وسنة نبيه بين يديك؟!
يقول تعالى:{ فَمَنِ ٱتَّبَعَ هُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَلَا یَشۡقَىٰ﴾ [طه ١٢٣]
ويقول: ﴿ فَمَن تَبِعَ هُدَایَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡهِمۡ وَلَا هُمۡ یَحۡزَنُونَ﴾ [البقرة ٣٨]
وعن مالك بن أنس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تركتُ فيكم أَمْرَيْنِ لن تَضِلُّوا ما تَمَسَّكْتُمْ بهما: كتابَ اللهِ وسُنَّةَ نبيِّهِ ﷺ".

حاشية: يقول ابن عبد البر في التمهيد (٢٤/٣٣١) : "محفوظ معروف مشهور عن النبي صلى الله عليه وسلم عند أهل العلم شهرة يكاد يستغني بها عن الإسناد" •
أخرجه مالك في «الموطأ» (٤٦-كتاب القدر، الحديث : ٣) بلاغاً.
وحسنه الألباني في تخريج مشكاة المصابيح (١٨٤)•

أما تؤمن بقضاء الله وقدره فكيف تخاف من ظالمي الدنيا والله الجبار حسبك وكافيك: ﴿وَمَن یَتَّقِ ٱللَّهَ یَجۡعَل لَّهُۥ مَخۡرَجࣰا (٢) وَیَرۡزُقۡهُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَحۡتَسِبُۚ وَمَن یَتَوَكَّلۡ عَلَى ٱللَّهِ فَهُوَ حَسۡبُهُۥۤۚ إِنَّ ٱللَّهَ بَـٰلِغُ أَمۡرِهِۦۚ قَدۡ جَعَلَ ٱللَّهُ لِكُلِّ شَیۡءࣲ قَدۡرࣰا (٣)﴾ [الطلاق ٢-٣]

أما تطمئن نفسك إلى هذه الآية: ﴿قُل لَّن یُصِیبَنَاۤ إِلَّا مَا كَتَبَ ٱللَّهُ لَنَا هُوَ مَوۡلَىٰنَاۚ وَعَلَى ٱللَّهِ فَلۡیَتَوَكَّلِ ٱلۡمُؤۡمِنُونَ﴾ [التوبة ٥١]
وبهذا الحديث: "....اعلمْ أنَّ الأمةَ لو اجتمعتْ على أن ينفعوك بشيءٍ، لم ينفعوك إلا بشيءٍ قد كتبه اللهُ لك، وإنِ اجتمعوا على أن يضُرُّوك بشيءٍ لم يضُروك إلا بشيءٍ قد كتبه اللهُ عليك، (رُفِعَتِ الأقلامُ وجَفَّتِ الصُّحُفَ)".

حاشية: أخرجه الترمذي في سننه (٢٥١٦) واللفظ له• وأحمد في مسنده (٢٧٦٣). صححه الألباني في صحيح الجامع (٧٩٥٧)، والوادعي في الصحيح المسند (٦٩٩).

دع الأيام تفعل ما تشاء / وطب نفسا إذا حكم القضاء
ولا تجزعن لحادثة اليالي/ فما لحوادث الدنيا بقاء
دع الأيام تغدر كل حين / فما يغني عن الموت الدواء

كيف تخاف من قلة أعوانك وأنصارك على أنك وحدك الجماعة وخليلك هو الله رب السماوات والأرض
﴿قَالَ ٱلَّذِینَ یَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَـٰقُوا۟ ٱللَّهِ كَم مِّن فِئَةࣲ قَلِیلَةٍ غَلَبَتۡ فِئَةࣰ كَثِیرَةَۢ بِإِذۡنِ ٱللَّهِۗ وَٱللَّهُ مَعَ ٱلصَّـٰبِرِینَ﴾ [البقرة ٢٤٩]

لا تخف من الفتن إن كنت مستقيما ثابتا تصدع بالحق فما هذه الفتن إلا لأن يميز الله بها الخبيث من الطيب والمؤمن من المنافق وحتى يتوب من يتوب
﴿الۤمۤ (١) أَحَسِبَ ٱلنَّاسُ أَن یُتۡرَكُوۤا۟ أَن یَقُولُوۤا۟ ءَامَنَّا وَهُمۡ لَا یُفۡتَنُونَ (٢)﴿وَلَقَدۡ فَتَنَّا ٱلَّذِینَ مِن قَبۡلِهِمۡۖ فَلَیَعۡلَمَنَّ ٱللَّهُ ٱلَّذِینَ صَدَقُوا۟ وَلَیَعۡلَمَنَّ ٱلۡكَـٰذِبِینَ﴾﴾ [العنكبوت ١-٣]
﴿أَوَلَا یَرَوۡنَ أَنَّهُمۡ یُفۡتَنُونَ فِی كُلِّ عَامࣲ مَّرَّةً أَوۡ مَرَّتَیۡنِ ثُمَّ لَا یَتُوبُونَ وَلَا هُمۡ یَذَّكَّرُونَ﴾ [التوبة ١٢٦]
وهذه سنة الله في الخلق ليمتحن عبد ويبليه، ولك في الأنبياء أسوة ومثلا:
"أشدُّ الناسِ بلاءً الأنبياءُ ثم الأمثلُ فالأمثلُ، يُبتلى الرجلُ على حسبِ دِينِه، فإن كان دِينُه صلبًا (وفي رواية فمن ثَخُنَ دينُه) اشتدَّ بلاؤُه،(وفي رواية زيد في بلائه) وإن كان في دِينِه رِقَّةٌ، ابتُلِيَ على حسبِ دِينِه، (وفي رواية ومن ضعُف دينُه ضَعُف بلاؤه) فما يبرحُ البلاءُ بالعبدِ حتى يتركُه يمشي على الأرضِ ما عليه خطيئةٌ"

حاشية: أخرجه الترمذي (٢٣٩٨)، وأحمد (١٤٩٤)، والدارمي (٢٧٨٣) باختلاف يسير. وابن ماجه (٤٠٢٤)، والطبري في «مسند ابن عباس» (٤٢١)، والبيهقي في «شعب الإيمان» (٩٧٧٤) بنحوه. • وابن حبان (٢٩٠١) والطحاوي (٢٢٠٣).
قال الألباني في السلسلة الصحيحة (١٤٣):إسناده جيد.
وحسنه الوادعي في الصحيح المسند (٣٧٧).

أليس لك في السلف الصالح أسوة حسنة؟ انظر إلى شجاعة الصحابيين الصغيرين وجرأتهما وقوة إيمانهما يقول عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنه: "بيْنا أَنا واقِفٌ في الصَّفِّ يَومَ بَدْرٍ، فَنَظَرْتُ عن يَمِينِي وعَنْ شِمالِي، فَإِذا أَنا بغُلامَيْنِ مِنَ الأنْصارِ - حَدِيثَةٍ أَسْنانُهُما، تَمَنَّيْتُ أَنْ أَكُونَ بيْنَ أَضْلَعَ منهما - فَغَمَزَنِي أَحَدُهُما فَقالَ: يا عَمِّ هلْ تَعْرِفُ أَبا جَهْلٍ؟ قُلتُ: نَعَمْ، ما حاجَتُكَ إلَيْهِ يا ابْنَ أَخِي؟ قالَ: أُخْبِرْتُ أنَّهُ يَسُبُّ رَسولَ اللَّهِ ﷺ، والذي نَفْسِي بيَدِهِ، لَئِنْ رَأَيْتُهُ لا يُفارِقُ سَوادِي سَوادَهُ حتّى يَمُوتَ الأعْجَلُ مِنّا، فَتَعَجَّبْتُ لذلكَ، فَغَمَزَنِي الآخَرُ، فَقالَ لي مِثْلَها، فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ نَظَرْتُ إلى أَبِي جَهْلٍ يَجُولُ في النّاسِ، قُلتُ: أَلا إنَّ هذا صاحِبُكُما الذي سَأَلْتُمانِي، فابْتَدَراهُ بسَيْفَيْهِما، فَضَرَباهُ حتّى قَتَلاهُ، ثُمَّ انْصَرَفا إلى رَسولِ اللَّهِ ﷺ، فأخْبَراهُ فَقالَ: أَيُّكُما قَتَلَهُ؟، قالَ كُلُّ واحِدٍ منهما: أَنا قَتَلْتُهُ، فَقالَ: هلْ مَسَحْتُما سَيْفَيْكُما؟، قالا: لا، فَنَظَرَ في السَّيْفَيْنِ، فَقالَ: كِلاكُما قَتَلَهُ، سَلَبُهُ لِمُعاذِ بنِ عَمْرِو بنِ الجَمُوحِ، وكانا مُعاذَ ابْنَ عَفْراءَ، ومُعاذَ بنَ عَمْرِو بنِ الجَمُوحِ." رضي الله عنهما.

حاشية: أخرجه البخاري (٣١٤١) واللفظ له، ومسلم (١٧٥٢) •

انظر إلى قصة الصحابة في غزوة الأحزاب:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا (9) إِذْ جَاءُوكُم مِّن فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا (10) هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا (11) وَإِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا (12) وَإِذْ قَالَت طَّائِفَةٌ مِّنْهُمْ يَا أَهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوا ۚ وَيَسْتَأْذِنُ فَرِيقٌ مِّنْهُمُ النَّبِيَّ يَقُولُونَ إِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَةٌ وَمَا هِيَ بِعَوْرَةٍ ۖ إِن يُرِيدُونَ إِلَّا فِرَارًا (13) وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِم مِّنْ أَقْطَارِهَا ثُمَّ سُئِلُوا الْفِتْنَةَ لَآتَوْهَا وَمَا تَلَبَّثُوا بِهَا إِلَّا يَسِيرًا (١٤)} [الأحزاب :٩-١٤] ومع ذلك ما خافوا إلا من الله ومع هذا البلاء العظيم والمنحة الشديدة التي تشيب لها الولدان لم ينقص من إيمانهم شيء.

تخاف من ظلم الجبابرة والطواغيت؟! أنسيت أن هذا الظلم لا يساوي شيئا أمام ظلم الكفار على الصحابة ولكن بالرغم من ذلك يقول لهم الرسول صلى الله عليه وسلم حين ضاقت بهم الدنيا وشكوا إليه "أَلا تَسْتَنْصِرُ لَنا، أَلا تَدْعُو اللَّهَ لَنا؟ فقالَ: "كانَ الرَّجُلُ فِيمَن قَبْلَكُمْ يُحْفَرُ له في الأرْضِ، فيُجْعَلُ فِيهِ، فيُجاءُ بالمِنْشارِ فيُوضَعُ على رَأْسِهِ فيُشَقُّ باثْنَتَيْنِ، وما يَصُدُّهُ ذلكَ عن دِينِهِ، ويُمْشَطُ بأَمْشاطِ الحَدِيدِ ما دُونَ لَحْمِهِ مِن عَظْمٍ أَوْ عَصَبٍ، وما يَصُدُّهُ ذلكَ عن دِينِهِ، واللَّهِ لَيُتِمَّنَّ هذا الأمْرَ، حتّى يَسِيرَ الرّاكِبُ مِن صَنْعاءَ إلى حَضْرَمَوْتَ، لا يَخافُ إلّا اللَّهَ، أَوِ الذِّئْبَ على غَنَمِهِ، ولَكِنَّكُمْ تَسْتَعْجِلُونَ".

حاشية: أخرجه البخاري في صحيحه (٣٦١٢) •

لقد جاء في تاريخ المسلمين من هم أظلم وأشر ممن في هم في هذا الزمان العصيب ولكن المؤمنين لم يخافوا منهم وهل يخاف المؤمن إلا من الله !

إذا كنت على حق فكيف تخاف؟! انظر إلى مشهد ولي الله التابعي الجليل سعيد بن جبير رحمه الله وشجاعته وثباته على الحق:

أتي الحجاج بسعيد بن جبير وهو يريد الركوب وقد وضع إحدى رجليه في الغرز، فقال: والله لا أركب حتى تتبوأ مقعدك من النار. ثم سأله "......ما حملك على الخروج علي وخلعت بيعة أمير المؤمنين، فقال سعيد: إن ابن الأشعث أخذ مني البيعة على ذلك وعزم علي، فغضب عند ذلك الحجاج غضبا شديدا، وانتفخ حتى سقط طرف ردائه عن منكبه. وقال له والله لأقتلنك قال: إني إذا لسعيد كما سمتني أمي.
قال: اختر أي قتلة أقتلك. فقال: اختر أنت فإن القصاص أمامك فقال الحجاج يا حرسي اضرب عنقه، فضربت عنقه. قال الراوي: والتبس الحجاج في عقله مكانه فجعل يقول: قيودنا قيودنا فظنوا أنه يريد القيود التي على سعيد فقطعوا رجليه من أنصاف ساقيه وأخذوا القيود. وبعد ذلك خرج منه دم كثير حتى راع الحجاج فدعا طبيبا فسأله عن ذلك فقال: إنك قتلته ونفسه معه وقلبه حاضر .
فلم يلبث الحجاج بعده إلا أربعين يوما، وكان إذا نام يراه في المنام يأخذ بمجامع ثوبه ويقول: يا عدو الله فيم قتلتني؟ فيقول الحجاج: مالي ولسعيد بن جبير، مالي ولسعيد بن جبير؟
قيل: وبعدما مات الحجاج رأى أحده في المنام فقيل له: ما فعل الله بك؟ فقال قتلني بكل رجل قتلته قتلة وقتلني بسعيد بن جبير اثنتين وسبعين قتلة"

حاشية: اقرأ مقتل سعيد بن جبير في كتاب البداية والنهاية ( ١٢ / ٤٦٣ - ٤٦٦ )

كيف تنسى منحة إمام دار الهجرة مالك رحمه الله وقصته مع جعفر بن سليمان في مسألة يمين المكره؟ وإن نسيت هذا فكيف تنسى أعظم منحة أتت على إمام أهل السنة والجماعة أحمد بن حنبل رحمه الله مع المستعصم في مسألة خلق القرآن؟ أما تذكر صلاح الدين أيوبي وموسى بن عمير وطارق بن زياد وأمثالهم؟!.

لا توغل في الذهاب إلى هذا البعد من التاريخ بل انظر في تاريخ وطنك الإسلامي :

حكم القاضي الإنجليزي (ايدورس) بالإعدام على محمد جعفر وغيره من الذين كانوا يساعدون السيد أحمد بن عرفان الشهيد على حدود أفغانستان ضد حكومة الاحتلال بحكمة عجيبة
قال القاضي لجعفر:
"إنك يا جعفر رجل عاقل متعلم ولك معرفة حسنة بقانون الدولة وأنت عمدة بلدك ومن سراته ولكنك بذلت عقلك وعلمك في المؤامرة والثورة على حكومتنا وكنت واسطة في انتقال المال والرجال من الهند إلى مركز الثوار (يعني جماعة السيد أحمد) ولم تزد إلا أن جحدت وعاندت ولم يثبت أنك كنت مخلصا وناصحا للدولة وها أنا ذا أحكم عليك بالإعدام ومصادرة جميع ما تملكه من مال وعقار ولا يسلم جسدك بعد الشنق إلى ورثتك بل تدفن في مقبرة الأشقياء بكل مهانة وسأكون سعيدا مسرورا حين أراك معلقا مشنوقا"

استمع الشاب في سكينة ووقار ولم يتغير ولم يضطرب ولما انتهى القاضي من كلامه قال محمد جعفر :" إن النفوس والأرواح بيد الله تعالى يحي ويميت وإنك أيها القاضي لا تملك حياة ولا مماتا ولا تدري من السابق منا إلى منهل الموت:

فوالله ما أدري وإني لأوجل / على أينا تغدو المنية أول

ثار الرجل غضبا وجن جنونه ولكنه لم يستطع أن يفعل شيئا أكثر من الأمر بالإعدام

استبشر محمد جعفر حين صدر عليه الحكم وتهلل وجهه فرحا كأنما تمثلت له الجنة والحور

هذا الذي كانت الأيام تنتظر / فليوف لله أقوام بما نذروا

أخذ الناس بالعجب مما رأو ودنا منه الضابط الإنجليزي (بارسن) وقال له:
"لم أرك كاليوم - قد حكم عليك بالإعدام - وأنت مسرور مستبشر"
قال جعفر: "وما لي لا أفرح ولا أستبشر وسيرزقني الله الشهادة في سبيله وأنت يا مسكين لا تدري حلاوتها"

نعم! فإنكم لا تكلفون شرب الخمر كما نكلف لذة جرعة الشهادة

ماذا حصل؟!؟
مات القاضي فجأة على إثر حكمه وجن ذلك الضابط ومات هو أيضا من خباله شر ميتة فكان كما أنذر محمد جعفر  و"رُبَّ أشْعَثَ، مَدْفُوعٍ بالأبْوابِ لو أقْسَمَ على اللهِ لأَبَرَّهُ".

حاشية: صحيح مسلم (٢٦٢٢)•

وأعجب من ذلك أن الحكم صدر بالعفو عنه بعدما لبث في السجن ثمانية عشر أعواما وهكذا نجى محمد بن جعفر فسبحان الله ﴿وَرَدَّ ٱللَّهُ ٱلَّذِینَ كَفَرُوا۟ بِغَیۡظِهِمۡ لَمۡ یَنَالُوا۟ خَیۡرࣰاۚ وَكَفَى ٱللَّهُ ٱلۡمُؤۡمِنِینَ ٱلۡقِتَالَۚ وَكَانَ ٱللَّهُ قَوِیًّا عَزِیزࣰا﴾ [الأحزاب ٢٥].

حاشية: اقرأ فصل "من الشنق إلى المنفى" في كتاب "إذا هبت ريح الإيمان" للندوي (١٩٤-٢٠٠)

ما شئت كان وإن لم أشأ / وما شئت وإن لم تشأ لم يكن

أما لك فيهم أسوة؟ تذّكر السيد أحمد بن عرفان ومحمد إسماعيل الشهيدين والشاه ولي الله المحدث الدهلوي وعبد الله غازي بوري وولايت علي وعنايت علي وأبا الكلام آزاد كيف ضربوا لنا أروع المثل في الشجاعة الإيمانية والقوة الروحانية. رحمهم الله جميعا.

ألا تتعجب وتقول: يا ترى ماذا كان وراءهم من القوة والعدة؟ وماذا كان معهم من قوى الأرض جميعا ؟ حتى تصاغرت أمامها جميع القوى وتضاءلت أمامها الكثرة وعجزت عنها التدابير بحذافيرها.؟!
نعم كان ذلك فوة نار الإيمان وحرارته التي كانت تنبعث من الحمية الدينية والأنفة الإسلامية
وكان وراءهم القوة الكبرى على الإطلاق قوة نصر الله وتأييده وحده.... وهل يتخيل المرء أن يضاهي قوة الله ؟! إنها قوة "كن فيكون"!!
أنت مسلم أسلمت أمورك وشوؤنك ونفسك وجوارحك كلها إلى الله سلمتها إلى رب العرش العظيم القهار الجبار الحي القيوم فكيف تخاف؟! إن الله لن يخزي عبده أبدا!!
حتى وإن استحيبت ديارك وسفكت دمائها واحتلت مقدساتها وتزعزع أمنها وضعف اقتصادها كن قويا بربك عزيزا بدينك وإيمانك اطلب الحياة كريمة أو مت ميتة شريفة.

ألم يعدك ربك وعدا حسنا بالعزة والنصر فقال:
﴿یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوۤا۟ إِن تَنصُرُوا۟ ٱللَّهَ یَنصُرۡكُمۡ وَیُثَبِّتۡ أَقۡدَامَكُمۡ﴾ [محمد ٧]
﴿إِن یَنصُرۡكُمُ ٱللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمۡۖ وَإِن یَخۡذُلۡكُمۡ فَمَن ذَا ٱلَّذِی یَنصُرُكُم مِّنۢ بَعۡدِهِۦۗ وَعَلَى ٱللَّهِ فَلۡیَتَوَكَّلِ ٱلۡمُؤۡمِنُونَ﴾ [آل عمران ١٦٠]؟؟

ألم يعدك ربك بالخلافة والملك والتمكين في الأرض :
﴿وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ مِنكُمۡ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّهُمۡ فِی ٱلۡأَرۡضِ كَمَا ٱسۡتَخۡلَفَ ٱلَّذِینَ مِن قَبۡلِهِمۡ وَلَیُمَكِّنَنَّ لَهُمۡ دِینَهُمُ ٱلَّذِی ٱرۡتَضَىٰ لَهُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّهُم مِّنۢ بَعۡدِ خَوۡفِهِمۡ أَمۡنࣰاۚ یَعۡبُدُونَنِی لَا یُشۡرِكُونَ بِی شَیۡـࣰٔاۚ وَمَن كَفَرَ بَعۡدَ ذَ ٰ⁠لِكَ فَأُو۟لَـٰۤىِٕكَ هُمُ ٱلۡفَـٰسِقُونَ﴾ [النور ٥٥]؟؟

أم تحسب والعياذ بالله أن الله لن يفي بعهوده على أن الله لا يخلف الميعاد!؟

كيف تخاف وأنت تمت إلى أمة يخاف منها الأعداء على بعد مسيرة شهر ويولون أدبارهم ويرجعون أدراجهم خائبين خاسرين و الخوف يملأ قلوبهم وكاد يغشى عليهم من شدة الهلع والفزع وأمثلة ذلك كثيرة في تاريخها، والله شاهد على ذلك:

﴿إِذۡ یُوحِی رَبُّكَ إِلَى ٱلۡمَلَـٰۤىِٕكَةِ أَنِّی مَعَكُمۡ فَثَبِّتُوا۟ ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ۚ سَأُلۡقِی فِی قُلُوبِ ٱلَّذِینَ كَفَرُوا۟ ٱلرُّعۡبَ فَٱضۡرِبُوا۟ فَوۡقَ ٱلۡأَعۡنَاقِ وَٱضۡرِبُوا۟ مِنۡهُمۡ كُلَّ بَنَانࣲ﴾ [الأنفال ١٢]
﴿سَنُلۡقِی فِی قُلُوبِ ٱلَّذِینَ كَفَرُوا۟ ٱلرُّعۡبَ بِمَاۤ أَشۡرَكُوا۟ بِٱللَّهِ مَا لَمۡ یُنَزِّلۡ بِهِۦ سُلۡطَـٰنࣰاۖ وَمَأۡوَىٰهُمُ ٱلنَّارُۖ وَبِئۡسَ مَثۡوَى ٱلظَّـٰلِمِینَ﴾ [آل عمران ١٥١]
وىقول النبي صلى الله عليه وسلم: "أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أحَدٌ مِنَ الأنْبِياءِ قَبْلِي: نُصِرْتُ بالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ،...."
صحيح البخاري (٤٣٨)•

وسأذكر لك قبسا من أقوال الأعداء التي تنبيك عن مدى خوفهم منا ومن ديننا.
يقول ابن غوريون (رئيس وزراء إسرائيلي سابق): "نحن لا نخشى الاشتراكيات، ولا الثوريات، ولا الديمقراطيات في المنطقة، نحن فقط نخشى الإسلام؛ هذا المارد الذي نام طويلاً وبدأ يتململ من جديد" ..

حاشية: عداء اليهود للحركة الإسلامية لزياد محمد علي
ص٤٦.

ويقول أيضاً: "إن أخشى ما نخشاه أن يظهر في العالم العربي محمد جديد" ....

حاشية: قادة الغرب يقولون لجلال العالم ص ٣٩

وزعماء أوربا يصرحون بأن الإسلام هو الذي يقف في وجه سيطرتهم على¼ من الشرق. يقول جلادستون (رئيس وزراء بريطانيا السابق): "ما دام القرآن موجوداً في أيدي المسلمين فلن تستطيع أوروبا السيطرة على الشرق"

حاشية: الإسلام على مفترق من الطرق لمحمد أسد ص٣٩. 

  ويقول أحد الكتّاب الغربيين: "كنا من قبل نُخوَّف بالخطر اليهودي، والخطر البلشفي والخطر الأصغر، ولكن سرعان ما أدركنا أن اليهود والشيوعيين البلاشفة لم يكونوا أعداءنا، وإنما هم أصدقاؤنا وحلفاؤنا، ولكن الخطر الأكبر الحقيقي ضدنا كامن في الإسلام، وفي قدرته على التوسع! فإن الإسلام هو الجدار الوحيد في وجه الاستعمار الغربي".

ففي الحقيقة إنهم هم الذين يخافون منا، يخافون أن لا يضيع دينهم المزيف فيخسر زعماؤه الثمن القليل الذي يشترونه به، يخافون لأن الإسلام هو الوحيد الذي أفضحهم وبين كنههم وحقيقتهم.
فلا تخف من مؤامراتهم ومنعهم إياك من الدين إن حققت مقتضيات الإيمان فسيُغلبون بإذن الله:
﴿إِنَّ ٱلَّذِینَ كَفَرُوا۟ یُنفِقُونَ أَمۡوَ ٰ⁠لَهُمۡ لِیَصُدُّوا۟ عَن سَبِیلِ ٱللَّهِۚ فَسَیُنفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَیۡهِمۡ حَسۡرَةࣰ ثُمَّ یُغۡلَبُونَۗ وَٱلَّذِینَ كَفَرُوۤا۟ إِلَىٰ جَهَنَّمَ یُحۡشَرُونَ﴾ [الأنفال ٣٦]
﴿قُل لِّلَّذِینَ كَفَرُوا۟ سَتُغۡلَبُونَ وَتُحۡشَرُونَ إِلَىٰ جَهَنَّمَۖ وَبِئۡسَ ٱلۡمِهَادُ﴾ [آل عمران ١٢]

هذا وعد من الله لك، كن متيقنا من مهجة قلبك أن الله معك ولن يخذلك وسيجعلك قاهرا عليهم يوما ما
﴿قُلۡنَا لَا تَخَفۡ إِنَّكَ أَنتَ ٱلۡأَعۡلَىٰ﴾ [طه ٦٨]
﴿فَأَیَّدۡنَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ عَلَىٰ عَدُوِّهِمۡ فَأَصۡبَحُوا۟ ظَـٰهِرِینَ﴾ [الصف ١٤]
﴿قَالَ لَا تَخَافَاۤۖ إِنَّنِی مَعَكُمَاۤ أَسۡمَعُ وَأَرَىٰ﴾ [طه ٤٦]
﴿لَا تَحۡزَنۡ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَنَاۖ فَأَنزَلَ ٱللَّهُ سَكِینَتَهُۥ عَلَیۡهِ وَأَیَّدَهُۥ بِجُنُودࣲ لَّمۡ تَرَوۡهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ ٱلَّذِینَ كَفَرُوا۟ ٱلسُّفۡلَىٰۗ وَكَلِمَةُ ٱللَّهِ هِیَ ٱلۡعُلۡیَاۗ وَٱللَّهُ عَزِیزٌ حَكِیمٌ﴾ [التوبة ٤٠]

ولماذا تخاف إذا كنت مجاهدا في سبيل الله مستعدا لمواجهة الأعداء بالإيمان والعلم والعقل والحزم اقرأ هذه الأية المؤثرة الحافزة:
﴿وَأَعِدُّوا۟ لَهُم مَّا ٱسۡتَطَعۡتُم مِّن قُوَّةࣲ وَمِن رِّبَاطِ ٱلۡخَیۡلِ تُرۡهِبُونَ بِهِۦ عَدُوَّ ٱللَّهِ وَعَدُوَّكُمۡ وَءَاخَرِینَ مِن دُونِهِمۡ لَا تَعۡلَمُونَهُمُ ٱللَّهُ یَعۡلَمُهُمۡۚ وَمَا تُنفِقُوا۟ مِن شَیۡءࣲ فِی سَبِیلِ ٱللَّهِ یُوَفَّ إِلَیۡكُمۡ وَأَنتُمۡ لَا تُظۡلَمُونَ﴾ [الأنفال ٦٠]
كن مؤمنا قويا جلدا وامض في سبيلك صبرا ف "الْمُؤْمِنُ القَوِيُّ، خَيْرٌ وَأَحَبُّ إلى اللهِ مِنَ المُؤْمِنِ الضَّعِيفِ، وفي كُلٍّ خَيْرٌ احْرِصْ على ما يَنْفَعُكَ، واسْتَعِنْ باللَّهِ وَلا تَعْجِزْ، وإنْ أَصابَكَ شيءٌ، فلا تَقُلْ لو أَنِّي فَعَلْتُ كانَ كَذا وَكَذا، وَلَكِنْ قُلْ قَدَرُ اللهِ وَما شاءَ فَعَلَ، فإنَّ لو تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطانِ".

حاشية: صحيح مسلم (٢٦٦٤).

ذكرتك بهذه الأمور فإن الذكرى تنفع المؤمنين ولكن إذا ما زلت تخاف من الأعداء وتظهر لهم الجبن والهوان فويلك ثم ويلك

ولا تر للأعادي قط ذلا/فإن شماتة الأعداء بلاء

هذا ليس خوفك الطبيعي الذي يصيبه أي بشر ولكنه خوف يتولد من نقصان الإيمان هذا الخوف لا يسيطر إلا على أولياء الشيطان:

﴿إِنَّمَا ذَ ٰ⁠لِكُمُ ٱلشَّیۡطَـٰنُ یُخَوِّفُ أَوۡلِیَاۤءَهُۥ فَلَا تَخَافُوهُمۡ وَخَافُونِ إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِینَ﴾ [آل عمران ١٧٥]
هذا الخوف ينتج عن عدم الثقة بالله وضعف اليقين به يأتي من حب الدنيا وكراهية الموت يأتي حين يكون هم الإنسان الملذات والشهوات يأتي حين يشك في قضاء الله وقدره وفي تحقيق وعده بنصر المؤمنين
هذا الخائف من المنافقين المرتابين الذي نزع الله السكينة من قلوبهم وقذف فيها الرعب والخوف

يقول تعال: ﴿فَإِذَا جَاۤءَ ٱلۡخَوۡفُ رَأَیۡتَهُمۡ یَنظُرُونَ إِلَیۡكَ تَدُورُ أَعۡیُنُهُمۡ كَٱلَّذِی یُغۡشَىٰ عَلَیۡهِ مِنَ ٱلۡمَوۡتِۖ﴾ [الأحزاب ١٩]

وقال النبي صلى الله عليه وسلم:
" يوشك الأمم أن تداعى عليكم (وفي رواية: من كل أفق) كما تداعى الأكلة إلى قصعتها. فقال قائل: ومن قلة نحن يومئذ؟ قال: بل أنتم يومئذ كثير، ولكنكم غثاء كغثاء السيل، ولينزعن الله من صدور عدوكم المهابة منكم، وليقذفن الله في قلوبكم الوهن. فقال قائل: يا رسول اللهِ ! وما الوهن؟ قال: حب الدنيا( وفي رواية حب الحياة) وكراهية الموت".

حاشية: أخرجه أبو داود في سننه ٤٢٩٧ واللفظ له•
وأحمد في مسنده ٢٢٣٩٧ والزيادة منه.
وانظر صحيح الجامع ٨١٨٣ والسلسلة الصحيحة ٩٥٨.

هذا الخوف يأتي عندما يوالي المسلم الأعداء والكفار ويتخذهم أخلاء وأولياء فيستغلون هذه العلاقة على معرفة عورات إخوانه ونقاط ضعفهم وثغرات بلادهم ولهذا السبب الخطير حرم الله موالاتهم وحذر من اتخاذهم بطائن فقال:
﴿۞ یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ لَا تَتَّخِذُوا۟ ٱلۡیَهُودَ وَٱلنَّصَـٰرَىٰۤ أَوۡلِیَاۤءَۘ بَعۡضُهُمۡ أَوۡلِیَاۤءُ بَعۡضࣲۚ وَمَن یَتَوَلَّهُم مِّنكُمۡ فَإِنَّهُۥ مِنۡهُمۡۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا یَهۡدِی ٱلۡقَوۡمَ ٱلظَّـٰلِمِینَ﴾ [المائدة ٥١]
وقال: ﴿یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ لَا تَتَّخِذُوا۟ بِطَانَةࣰ مِّن دُونِكُمۡ لَا یَأۡلُونَكُمۡ خَبَالࣰا وَدُّوا۟ مَا عَنِتُّمۡ قَدۡ بَدَتِ ٱلۡبَغۡضَاۤءُ مِنۡ أَفۡوَ ٰ⁠هِهِمۡ وَمَا تُخۡفِی صُدُورُهُمۡ أَكۡبَرُۚ قَدۡ بَیَّنَّا لَكُمُ ٱلۡـَٔایَـٰتِۖ إِن كُنتُمۡ تَعۡقِلُونَ﴾ [آل عمران ١١٨]

الذي يخاف فهو البعيد عن عبادة الله وذكره وصلاته البعيد عن القرآن والسنة.
نعم! وهذا الخوف الذي ينتابه هو جزاؤه في الدنيا كما سينغص الله حياته ويجعل عيشه غصة يتجرعها على مضض:
﴿وَمَنۡ أَعۡرَضَ عَن ذِكۡرِی فَإِنَّ لَهُۥ مَعِیشَةࣰ ضَنكࣰا وَنَحۡشُرُهُۥ یَوۡمَ ٱلۡقِیَـٰمَةِ أَعۡمَىٰ (١٢٤) قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرۡتَنِیۤ أَعۡمَىٰ وَقَدۡ كُنتُ بَصِیرࣰا (١٢٥) قَالَ كَذَ ٰ⁠لِكَ أَتَتۡكَ ءَایَـٰتُنَا فَنَسِیتَهَاۖ وَكَذَ ٰ⁠لِكَ ٱلۡیَوۡمَ تُنسَىٰ (١٢٦)وَكَذَ ٰ⁠لِكَ نَجۡزِی مَنۡ أَسۡرَفَ وَلَمۡ یُؤۡمِنۢ بِـَٔایَـٰتِ رَبِّهِۦۚ وَلَعَذَابُ ٱلۡـَٔاخِرَةِ أَشَدُّ وَأَبۡقَىٰۤ (١٢٧) ﴾ [طه ١٢٤-١٢٧]

هذا الخوف يأتي من يئس من رحمة الله وقطع الرجاء منه على أن الله يقول:

﴿ وَلَا تَا۟یۡـَٔسُوا۟ مِن رَّوۡحِ ٱللَّهِۖ إِنَّهُۥ لَا یَا۟یۡـَٔسُ مِن رَّوۡحِ ٱللَّهِ إِلَّا ٱلۡقَوۡمُ ٱلۡكَـٰفِرُونَ﴾ [يوسف ٨٧]
﴿ وَمَن یَقۡنَطُ مِن رَّحۡمَةِ رَبِّهِۦۤ إِلَّا ٱلضَّاۤلُّونَ﴾ [الحجر ٥٦]

تقول في نفسك إنهم سيؤذونني؟ فاسمع إنهم يؤذونك لتسليط الله إياهم عليك بسبب ذنوبك؛ لم تخف من الله ولم تتقيه ولم تتوكل عليه ولم تتب من ذنوبك ولم تستغفر

والله بالله تالله ﴿إِنَّ ٱللَّهَ لَا یَظۡلِمُ ٱلنَّاسَ شَیۡـࣰٔا وَلَـٰكِنَّ ٱلنَّاسَ أَنفُسَهُمۡ یَظۡلِمُونَ﴾ [يونس ٤٤]
كيف يعذب أرحم الراحمين عبده وهو يستغفر ويمتثل بأوامره وينتهي عن معاصيه
﴿وَمَا كَانَ ٱللَّهُ لِیُعَذِّبَهُمۡ وَأَنتَ فِیهِمۡۚ وَمَا كَانَ ٱللَّهُ مُعَذِّبَهُمۡ وَهُمۡ یَسۡتَغۡفِرُونَ﴾ [الأنفال ٣٣]
﴿وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِیُهۡلِكَ ٱلۡقُرَىٰ بِظُلۡمࣲ وَأَهۡلُهَا مُصۡلِحُونَ﴾ [هود ١١٧]

وهذا هو الذي يخبرنا الحديث النذير: " لتأمرُنَّ بالمعروفِ، ولتنهوُنَّ عنِ المنكَرِ أو ليسلِّطنَّ اللَّهُ عليكُم شرارَكُم، فيدعو خيارُكُم فلا يُستجابُ لَهُم"

حاشية: ذكره السيوطي، في الجامع الصغير (٧٢٠٥) •وقال: حسن.

هذا الخوف يأتي بسبب الجهل والبعد عن العلم وخاصة بسبب جهل التاريخ الإسلامي بل بسبب جهل تاريخ الهند الإسلامي فلو علم الرجل أن آباءه وأجداده هم أول من رفعوا راية حركة التحرير لما عاش عيشة الخوف واليأس وهو في وطنه الحقيقي.

ولكن إذا خفت يا أخي فخف من ذنوبك التي تجلب عليك جميع المصائب. تصفح القرآن وانظر كيف كان عاقبة المجرمين المذنبين العاصين كيف أخذ الله قوم نوح وهود وصالح ولوط وموسى عليهم السلام بذنوبهم وبطش بهم:

﴿۞ أَوَلَمۡ یَسِیرُوا۟ فِی ٱلۡأَرۡضِ فَیَنظُرُوا۟ كَیۡفَ كَانَ عَـٰقِبَةُ ٱلَّذِینَ كَانُوا۟ مِن قَبۡلِهِمۡۚ كَانُوا۟ هُمۡ أَشَدَّ مِنۡهُمۡ قُوَّةࣰ وَءَاثَارࣰا فِی ٱلۡأَرۡضِ فَأَخَذَهُمُ ٱللَّهُ بِذُنُوبِهِمۡ وَمَا كَانَ لَهُم مِّنَ ٱللَّهِ مِن وَاقࣲ﴾ [غافر ٢١]

﴿لَّا تَجۡعَلُوا۟ دُعَاۤءَ ٱلرَّسُولِ بَیۡنَكُمۡ كَدُعَاۤءِ بَعۡضِكُم بَعۡضࣰاۚ قَدۡ یَعۡلَمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِینَ یَتَسَلَّلُونَ مِنكُمۡ لِوَاذࣰاۚ فَلۡیَحۡذَرِ ٱلَّذِینَ یُخَالِفُونَ عَنۡ أَمۡرِهِۦۤ أَن تُصِیبَهُمۡ فِتۡنَةٌ أَوۡ یُصِیبَهُمۡ عَذَابٌ أَلِیمٌ﴾ [النور ٦٣]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « بُعِثْتُ بَيْنَ يَدَىِ السَّاعَةِ بِالسَّيْفِ حَتَّى يُعْبَدَ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ وَجُعِلَ رِزْقِى تَحْتَ ظِلِّ رُمْحِى وَجُعِلَ الذُّلُ وَالصَّغَارُ عَلَى مَنْ خَالَفَ أَمْرِى وَمَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ ».

صححه الألباني في صحيح الجامع ٢٨٣١ • صحيح • أخرجه البخاري معلقاً بصيغة التضعيف قبل حديث (٢٩١٤) مختصراً، وأخرجه موصولاً أحمد (٥٦٦٧) واللفظ له.


انظر ماذا فعل الله بقارون وفرعون وهامان وغيرهم من الذين لم يؤمنوا بنبيهم وتمادوا في المعاصي :
﴿فَكُلًّا أَخَذۡنَا بِذَنۢبِهِۦۖ فَمِنۡهُم مَّنۡ أَرۡسَلۡنَا عَلَیۡهِ حَاصِبࣰا وَمِنۡهُم مَّنۡ أَخَذَتۡهُ ٱلصَّیۡحَةُ وَمِنۡهُم مَّنۡ خَسَفۡنَا بِهِ ٱلۡأَرۡضَ وَمِنۡهُم مَّنۡ أَغۡرَقۡنَاۚ وَمَا كَانَ ٱللَّهُ لِیَظۡلِمَهُمۡ وَلَـٰكِن كَانُوۤا۟ أَنفُسَهُمۡ یَظۡلِمُونَ﴾ [العنكبوت ٤٠]
﴿وَكَمۡ قَصَمۡنَا مِن قَرۡیَةࣲ كَانَتۡ ظَالِمَةࣰ وَأَنشَأۡنَا بَعۡدَهَا قَوۡمًا ءَاخَرِینَ﴾ [الأنبياء ١١]

الذنوب والمعاصي هي التي تزعزع أمن المجتمع وهي التي تفسد سلامة البلد وتورث الخوف في قلوب الناس:

عَنْ أَبِى قَتَادَةَ بْنِ رِبْعِىٍّ الأَنْصَارِىِّ أَنَّهُ كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- مُرَّ عَلَيْهِ بِجِنَازَةٍ فَقَالَ « مُسْتَرِيحٌ وَمُسْتَرَاحٌ مِنْهُ ». قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْمُسْتَرِيحُ وَالْمُسْتَرَاحُ مِنْهُ قَالَ « الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ يَسْتَرِيحُ مِنْ نَصَبِ الدُّنْيَا وَأَذَاهَا إِلَى رَحْمَةِ اللَّهِ وَالْعَبْدُ الْفَاجِرُ يَسْتَرِيحُ مِنْهُ الْعِبَادُ وَالْبِلاَدُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ ».

حاشية: صحيح البخاري: ٦٥٩١

وقال تعالى: ﴿وَضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلࣰا قَرۡیَةࣰ كَانَتۡ ءَامِنَةࣰ مُّطۡمَىِٕنَّةࣰ یَأۡتِیهَا رِزۡقُهَا رَغَدࣰا مِّن كُلِّ مَكَانࣲ فَكَفَرَتۡ بِأَنۡعُمِ ٱللَّهِ فَأَذَ ٰ⁠قَهَا ٱللَّهُ لِبَاسَ ٱلۡجُوعِ وَٱلۡخَوۡفِ بِمَا
كَانُوا۟ یَصۡنَعُونَ﴾ [النحل ١١٢]
فكان أهل هذه القرية - بعدما أذهب الله كل شيء لهم - يأكلون العظام المحرقة والكلاب الميتة والقد والجيف حتى اضطروا إلى أكل العلهز وهو وبر البعير يخلط بالدم والقراد، وهذه القرية مكة المكرمة فيها بيت الله الحرام فكيف بغيرها من القرى؟! وهذا حال من كفر بنعمة قليلة وجحدها كما تفيد صيغة جمع القلة " أنعم " فماذا يكون حال من كفر بنعم لا تعد ولا تحصى؟! ﴿أَفَأَمِنُوا۟ مَكۡرَ ٱللَّهِۚ فَلَا یَأۡمَنُ مَكۡرَ ٱللَّهِ إِلَّا ٱلۡقَوۡمُ ٱلۡخَـٰسِرُونَ﴾ [الأعراف ٩٩]
نسأل الله السلامة والعافية.

ونظير هذه الآية قوله تعالى: ﴿وَلَوۡ أَنَّ أَهۡلَ ٱلۡقُرَىٰۤ ءَامَنُوا۟ وَٱتَّقَوۡا۟ لَفَتَحۡنَا عَلَیۡهِم بَرَكَـٰتࣲ مِّنَ ٱلسَّمَاۤءِ وَٱلۡأَرۡضِ وَلَـٰكِن كَذَّبُوا۟ فَأَخَذۡنَـٰهُم بِمَا كَانُوا۟ یَكۡسِبُونَ﴾ [الأعراف ٩٦]

وأخطر منهما : ﴿فَلَمَّا نَسُوا۟ مَا ذُكِّرُوا۟ بِهِۦ فَتَحۡنَا عَلَیۡهِمۡ أَبۡوَ ٰ⁠بَ كُلِّ شَیۡءٍ حَتَّىٰۤ إِذَا فَرِحُوا۟ بِمَاۤ أُوتُوۤا۟ أَخَذۡنَـٰهُم بَغۡتَةࣰ فَإِذَا هُم مُّبۡلِسُونَ﴾ [الأنعام ٤٤]

وهكذا ﴿ظَهَرَ ٱلۡفَسَادُ فِی ٱلۡبَرِّ وَٱلۡبَحۡرِ بِمَا كَسَبَتۡ أَیۡدِی ٱلنَّاسِ لِیُذِیقَهُم بَعۡضَ ٱلَّذِی عَمِلُوا۟ لَعَلَّهُمۡ یَرۡجِعُونَ﴾ [الروم ٤١]

فانظر كيف صوّر الله حال المسلمين اليوم بأبدع تصوير في هذه الآيات كأنما نزلت الآن الساعة!!

ولو تتبعنا وتعمقنا في تدقيق النظر لرأينا أن أسباب سقوط خلافات المسلمين من الأموية والعباسية والعثمانية والأندلسية حتى الهندية فإنها حتما ترجع في النهاية إلى المعاصي والذنوب.

وكذلك أسباب هزيمتهم في أكثر المعارك من غزوة أحد وحرب الأيام الستة ومعركة القنطرة والاستنزاف وغيرها راجعة إلى الذنوب والخطايا نهائيا

هذا وأنشدك بالله إذا لم تستطع أن تأتي بحسنة فمن فضلك لا تقترف أي معصية فإنها والله أول باب المصائب وآخرها
﴿وَمَاۤ أَصَـٰبَكُم مِّن مُّصِیبَةࣲ فَبِمَا كَسَبَتۡ أَیۡدِیكُمۡ وَیَعۡفُوا۟ عَن كَثِیرࣲ﴾ [الشورى ٣٠]
﴿مَّاۤ أَصَابَكَ مِنۡ حَسَنَةࣲ فَمِنَ ٱللَّهِۖ وَمَاۤ أَصَابَكَ مِن سَیِّئَةࣲ فَمِن نَّفۡسِكَۚ وَأَرۡسَلۡنَـٰكَ لِلنَّاسِ رَسُولࣰاۚ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ شَهِیدࣰا﴾ [النساء ٧٩]

ثم إن شرارتها لن تجحف بأصحاب المعاصي فقط بل تعم الجميع من الذين لا يد لهم فيها:
﴿وَٱتَّقُوا۟ فِتۡنَةࣰ لَّا تُصِیبَنَّ ٱلَّذِینَ ظَلَمُوا۟ مِنكُمۡ خَاۤصَّةࣰۖ وَٱعۡلَمُوۤا۟ أَنَّ ٱللَّهَ شَدِیدُ ٱلۡعِقَابِ﴾ [الأنفال ٢٥]

وَعَنْ زَيْنَبَ ابْنَةِ جَحْشٍ - رضى الله عنهن أَنَّ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- دَخَلَ عَلَيْهَا فَزِعًا يَقُولُ « لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ فُتِحَ الْيَوْمَ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِثْلُ هَذِهِ ». وَحَلَّقَ بِإِصْبَعِهِ الإِبْهَامِ وَالَّتِى تَلِيهَا. قَالَتْ زَيْنَبُ ابْنَةُ جَحْشٍ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَهْلِكُ وَفِينَا الصَّالِحُونَ قَالَ « نَعَمْ إِذَا كَثُرَ الْخُبْثُ ».

حاشية: صحيح البخاري ٣٣٨١

وحينئذ لا يستجاب دعاء ولا يقبل تضرع ولا يسمع نداء ولا تنفع صرخة فالويل والويل:
 عن حذيفة بن اليمان قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " والذي نفسي بيدِه لتَأمرُنَّ بالمعروفِ ولتَنهوُنَّ عن المنكرِ أوليُوشِكَنَّ اللهُ أن يَبعثَ عليكمْ عقابًا منهُ فتدعونهُ فلا يَستجيبُ لكمْ".

حاشية: أخرجه الترمذي، في سننه ٢١٦٩ • وحسنه.
وكذلك الألباني حسنه في صحيح الجامع ٧٠٧٠.

فلُم قلبك لا عدوك واشتم نفسك الأمارة بالسوء لا من سلطهم الله عليك ولا تلعنهم ولا تسبهم ولا تتمنى أن يموتوا فوالله لن يأتي بعدهم إلا وهو أشر منهم وأضر وأخبث وأدهى بل اصلح نفسك ستصلح جميع الأمور.

نعيب زماننا والعيب فينا / وما لزماننا عيب سوانا
ونهجو ذا الزمان بغير ذنب / ولو نطق الزمان لنا هجانا

واصبر على الخير وعن الشر فذاك عروة الوثقى في هذا الزمن العصيب:

فَعَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِىٍّ قَالَ أَتَيْنَا أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ فَشَكَوْنَا إِلَيْهِ مَا نَلْقَى مِنَ الْحَجَّاجِ فَقَالَ « اصْبِرُوا فَإِنَّهُ لاَ يَأْتِى عَلَيْكُمْ زَمَانٌ إِلاَّ الَّذِى بَعْدَهُ شَرٌّ مِنْهُ حَتَّى تَلْقَوْا رَبَّكُمْ ». سَمِعْتُهُ مِنْ نَبِيِّكُمْ -صلى الله عليه وسلم-.

حاشية: صحيح البخاري ٧١٥٥ ومسند أحمد ١٢٦٨١، ١٣١٥٤

والله تعالى أعلم.

عبد العزيز بن محمد يوسف بن محمد عمر المالدهي
السنة الثانية لكلية الحديث الشريف بالجامعة السلفية
بنارس،الهند

للقراءة في صيغة "بي دي ايف" انقر على الرابط:

https://documentcloud.adobe.com/link/track?uri=urn%3Aaaid%3Ascds%3AUS%3Adffab8c0-5a82-4600-a16b-1bfb895557e6