منشورات مميزة

علماء کرام بیرون ملک کا رخ کیوں کرتے ہیں؟

 علماء کرام بیرون ملک کا رخ کیوں کرتے ہیں؟   بعض بھائیوں کا جواب   أحد إخواننا:   وہ علماء جو بیرون ممالک رہائش پذیر ہیں، ان کے بارے میں میر...

الأحد، 25 أكتوبر 2020

علماء کرام بیرون ملک کا رخ کیوں کرتے ہیں؟

 علماء کرام بیرون ملک کا رخ کیوں کرتے ہیں؟

  بعض بھائیوں کا جواب 

 أحد إخواننا: 

 وہ علماء جو بیرون ممالک رہائش پذیر ہیں، ان کے بارے میں میری ناقص رائے یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر لوگوں کوان کی معاشی حالت کی بہتری، بہتر مستقبل کی کوشش، دیگر فرائض وذمہ داری کی ادائیگی کا احساس، اور سب سے اہم اپنی اولاد کی اعلی تعلیم کے خواب کی تعبیر کی کوشش، وغیرہ، ان کو ملک سے باہر قیام کرنے پر مجبور کی ہوئی ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کے لیے مناسب و بہتر تو یہ تھا کہ اپنے اپنے علاقے میں رہ کر تعلیم وتدریس، تالیف و تصنیف ، نیز منظم دعوت وتبلیغ کی کوشش کو جاری رکھتے لیکن وجوہات کی بنا پر اگر وہ ایسا نہیں کر سکے تو وہ قابل ملامت بھی نہیں ہیں اس صورت میں جب کہ وہ مقامی علماء اور علاقائی لوگوں سے جڑ کر اپنے فرائض کا انجام دیتے رہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ ہمیشہ باہر ہی مقیم نہ رہیں بلکہ ضروریات کی ایک حد تک تکمیل کرنے کے بعد اپنے علاقے میں رہ کر اپنی اپنی قابلیت اور صلاحیت سے دوسروں کو استفادہ کے مواقع فراہم کریں

 آخر:

 کیا کریں!؟ جو باہر رہتے ہیں وہ بھی ملک ہی میں رہنا چاہتے ہیں لیکن باہر جو عزت ملتی ہے، پیسہ ملتا ہے وہ اپنے علاقہ میں نہیں مل پاتا .... خدمت دین کے ساتھ ساتھ روزگار بھی ضروری ہے  ، نہیں تو پیٹ کہاں سے چلے گا؟ تقوی کامل والے کہاں ہیں آجکل بھائی....؟ اگر کوئی تقوی کامل اختیار کر بھی لے تو بھی اولاد کی وجہ سے مجبور ہوجاتا ہے زمانہ بدل گیا ہے بولنے والے بولتے رہیں گے....لیکن عمل کرنے والا ایک بھی نہیں ملے گا  یہی حقیقت ہے! صرف علماء ذمہ دار نہیں ہیں...سماج بھی اتنا ہی ذمہ دار ہے...یہ سماج تو علماء کو کچھ سمجھتا ہی نہیں ...تالی دونوں ہاتھ سے بجتا ہے... اگر آپ بھی پی.ایچ.ڈی اور دکتوراہ کرلیں تو کیا آپ اپنے لئے مناسب جگہ نہیں ڈھونڈوگے؟ یا مکتب میں جاکے درس و تدریس کا کام چالو کر دیں گے اور وہیں سے خدمت دین کا ابھیان چلائیں گے؟ آپکا دل جو جواب دے گا تقریبا سب کا وہی جواب ہوگا! بہت سی چیزیں صرف سوچنے میں اچگی لگتی ہیں لیکن دل چاہ کے بھی اس پر عمل نہیں ہوتا۔ راشن بھی دے دیتا مودی تو بیچارہ مزدور کیوں در در کی ٹھوکریں کھاتا! صرف علماء کو ہی مکمل ذمہ دار ٹہرانا قطعا مناسب نہیں ہے۔ 

 آخر: 

 ہم اپنی ذمہ داریوں سے کیوں پیچھے بھاگتے ہیں ہم ان کے لیے راہیں آسان کریں وہ ضرور یہیں رہیں گے! کوئی وہاں نہیں رہنا چاہتا تھا مجبورا جاتا ہے۔

 آخر: 

 یہ حقیقت ہے کہ  علماء کی بڑی جماعت  بیرون ممالک میں رہتی آئی ہے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، مگر کیوں ؟ وہ اپنے ملک میں کام کیوں نہیں کرتے ؟ مجھے امید ہے کہ اس پہلو پر آپ نے غور کیا  ہوگا کہ علماء بھی انسان ہیں ان کی بھی اپنی ضروریات ہیں، اور ان اخراجات کی تکمیل کے لئے وہ کوشش کرتے ہیں سو جہاں خاطر خواہ وسائل ہوتے ہیں وہاں کام کرتے ہیں، میں نے خود اس کا مشاہدہ کیا ہے اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اساتذہ ایک مدرسے سے دوسرے مدرسے میں منتقل ہوتے ہیں جس کا ایک سبب ذریعہ معاش بھی ہے۔ اور ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو صرف مادی مفاد کی خاطر اپنے وطن کو چھوڑے ہوئے ہیں اور اس صورت میں میں آپ کی کھلے طور پر تائید کرتا ہوں، مگر یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ  علماء کی ایک جماعت ایسی بھی ہے جو  بیرون ملک کے ساتھ ساتھ اپنے ملک میں بھی کام کرتی ہے،  اگر جمعیت اپنا کام بخوبی انجام دے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ شکایت نہیں رہے گی کیونکہ علماء کی کمی نہیں ہے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں فارغ ہوتے ہیں اور  ہر ایک کو باہر جانے کا موقع بھی نہیں ملتا ہے، اور جو لوگ ملک میں موجود  ہیں انہیں بقدر ضرورت وسائل مہیہ ہوں تو وہ یہ کمی پوری کر دیں گے، ان شاء اللہ، چلو مان لیتے ہیں کہ بیرون ممالک سے آپ نے کسی کو بلا بھی لیا تو آپ کے پاس ان کے لئے کیا پلان ہے ؟ اگر وہ مزید کا مطالبہ کریں؟      

         آخر:

 اس میں کوئی شک نہیں کہ دین کی خدمت کرنا علما کے لیے ایک اہم کام ہے اور جہاں ضرورت ہو، یا جہاں سے کام ہوجائے وہی جگہ ان کے لیے بہتر ہے مگر کچھ اور چیزیں کبھی کبھار مانع ہوجاتی ہیں مثال کے طور پر تنخواہ وغیرہ کا مسئلہ  یا دیگر سہولیات کا مسئلہ. بسا اوقات علاقہ میں بے جا تشدد یا  بلا وجہ کے اختلافات ہوجاتے ہیں کبھی کبھار کسی کے ساتھ گھریلو مسائل ہوتے ہیں. ایک اہم چیز یہ بھی ہے کہ ہر انسان کا اپنا تخصص اور فن ہوتا ہے بس اوقات اس کا تخصص اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ گاوں یا علاقہ میں بیٹھ کر کچھ کام کرے مثال کے طور پر ایک شخص محقق ہے۔۔۔ تو کیا اس کے لیے گاؤں مناسب ہوگا؟؟ جہاں پر لائٹ، بجلی، لائبریری اور کتابوں کا اچھا خاصہ انتظام نہ ہو

 وقس على هذا! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الأربعاء، 1 يوليو 2020

حدثنا_وأخبرنا_ایک_مردہ_سنت!

#حدثنا_وأخبرنا_ایک_مردہ_سنت!

جب ہم نے اپنے اساتذہ وشیوخ کی عزت نہیں کی تو اس کا بدلہ ہمیں اللہ نے یہ دیا کہ ہم ان کے علم کی نشر و اشاعت نہیں کر سکے!
ورنہ عرب کے طلبہ وعلماء تا حیات اپنے اساتذہ وشیوخ کی باتوں کو نقل کرتے رہتے ہیں اور حدثنا واخبرنا کہہ کر سلف صالحین کی سنت کو زندہ رکھتے ہیں!

یہ چیز اپنے وطن میں کہیں نہیں ملے گی! کیوں کہ ہم کو اپنے اساتذہ کی بے عزتی نا قدری اور حسد وبغض سے کہاں فرصت ہے!

الخميس، 12 مارس 2020

يا أختاه!

#إلى_أختي_المسلمة

الحجاب طاعة لله عز وجل،
وطاعة لرسول الله صلى الله عليه وسلم،
الحجاب طهارة،
الحجاب عفة،
الحجاب ستر،
الحجاب تقوى،
الحجاب حياء،
الحجاب غيرة،
الحجاب من الإيمان.

والتبرج معصية لله،
ولرسوله صلى الله عليه وسلم،
التبرج كبيرة مهلكة،
التبرج موجب للعن والطرد من رحمة الله،
التبرج من صفات أهل النار،
التبرج سواد وظلمة يوم القيامة،
التبرج نفاق،
التبرج تهتك وفضيحة،
التبرج فاحشة،
التبرج سنة إبليسية،
التبرج فتنة عظيمة،
التبرج طريقة يهودية،
التبرج جاهلية منتنة،
التبرج جبلة حيوانية وفطرة بهيمية،
التبرج تخلف وانحطاط.
التبرج علامة قرب القيامة!!

والمتبرجة جرثومة خبيثة خطيرة ضارة تنشر الفاحشة في المجتمع الإسلامي....
انخرمت مروئتها،وفسدت فطرتها، وانعدمت غيرتها، وذهبت حميتها، وتبلد إحساسها، ومات شعورها، وقل حياءها.
كأنها سلعة رخيصة مهينة خسيسة معروضة لكل من شاء أن ينظر إليها.

قال تعالى: "إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ ..."

مستفاد#
من كتاب الشيخ محمد بن أحمد بن إسماعيل" الحجاب
لماذا؟ " مؤلف "عودة الحجاب"..

*مع حذف وإضافة*

موقف المسلم عند المصيبة

الحمد لله المنفرد بالبقاء والقهر، حمدا متعاقبا على مر الدهر، أحمده على على القضاء والقدر، على الحلو والمر والنفع والضرر، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، موقنا بأنه هو الأحد الذي رفع الكرب وأنزله، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله، الذي هو أسوة لكل مبتلٍ ودليله.

أما بعد:

فإن العبد إذا رأى عن يمينه فلا يرى إلا فتنة، وإذا رأى عن شماله فلا يرى إلا محنة! يرى الدنيا على حسرة وتأسف! ومن ثم يعلم أنها دار بلاء وامتحان؛ يختبر فيه العبد وقتا قليلا؛ لينعم طويلا. وقد قال النبي صلى الله عليه وسلم: "الدُّنْيا سِجْنُ المُؤْمِنِ، وجَنَّةُ الكافِرِ".
صحيح مسلم ٢٩٥٦ •

وهناك مواقف كثيرة يجب على العبد المصاب أن يأتي عليها ويقف عندها وسنذكر بعضها:

*الموقف الأول:* بل الأعظم والأجل : أن يصبر عقب المصيبة. ومعنى الصبر: أن يحبس قلبه فلا يتسخط ولا ييأس من رحمة الله، ويحبس لسانه فلا يشكو ولا يتذمر ولا يتشاءم ولا ينحو، ويحبس جوارحه فلا يلطم خده، ويخمش وجهه، ولا يشج رأسه، وينتف شعره، ولا يدعو بالويل، ودعوى الجاهلية. فلا دواء أنفع لعلاج المصاب وتسليته من الصبر؛ لذلك يقول النبي صلى الله عليه وسلم مبينا أهمية الصبر عند أول الأمر: "إنَّما الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الأُولى".
صحيح البخاري ١٢٨٣ •

*الموقف الثاني:* أن يدعو بالأدعية المأثورة كَ "إنا لله وإنا إليه راجعون اللهم أجرني في مصيبتي وأخلف لنا خيرا منها"
فقد قال النبي صلى الله عليه وسلم عن فضل هذا الدعاء: "اللَّهُمَّ أْجُرْنِي في مُصِيبَتِي، وَأَخْلِفْ لي خَيْرًا منها، إلّا أَجَرَهُ اللَّهُ في مُصِيبَتِهِ، وَأَخْلَفَ له خَيْرًا منها".
صحيح مسلم ٩١٨ •

ولمَ لا؟ فالله يقول: ﴿وَبَشِّرِ ٱلصَّـٰبِرِینَ......أُو۟لَـٰۤىِٕكَ عَلَیۡهِمۡ صَلَوَ ٰ⁠تࣱ مِّن رَّبِّهِمۡ وَرَحۡمَةࣱۖ وَأُو۟لَـٰۤىِٕكَ هُمُ ٱلۡمُهۡتَدُونَ﴾. [البقرة١٥٥، ١٥٧]

ووالله سيشعر المؤمن براحة قلبية وطمأنينة نفسية ولذة إيمانية وسكونٍ داخلي حينما يقول بملء قلبه وجوارحه : ﴿إِنَّمَاۤ أَشۡكُوا۟ بَثِّی وَحُزۡنِیۤ إِلَى ٱللَّهِ﴾.
[يوسف ٨٦]

*الموقف الثالث:* أن يعلم علم اليقين أن ذلك كله من قدر الله وقضائه فلا مرد لذلك ولا مفر منه، وأن فيه حكمة لا يعلمها إلا الله، يقول تعالى: ﴿وَلَنَبۡلُوَنَّكُم بِشَیۡءࣲ مِّنَ ٱلۡخَوۡفِ وَٱلۡجُوعِ وَنَقۡصࣲ مِّنَ ٱلۡأَمۡوَ ٰ⁠لِ وَٱلۡأَنفُسِ وَٱلثَّمَرَ ٰ⁠تِۗ وَبَشِّرِ ٱلصَّـٰبِرِینَ﴾.
[البقرة ١٥٥]
﴿وَنَبۡلُوكُم بِٱلشَّرِّ وَٱلۡخَیۡرِ فِتۡنَةࣰۖ وَإِلَیۡنَا تُرۡجَعُونَ﴾.
[الأنبياء ٣٥]
وقال:﴿أَحَسِبَ ٱلنَّاسُ أَن یُتۡرَكُوۤا۟ أَن یَقُولُوۤا۟ ءَامَنَّا وَهُمۡ لَا یُفۡتَنُونَ﴾ [العنكبوت ٢] ﴿وَلَقَدۡ فَتَنَّا ٱلَّذِینَ مِن قَبۡلِهِمۡۖ فَلَیَعۡلَمَنَّ ٱللَّهُ ٱلَّذِینَ صَدَقُوا۟ وَلَیَعۡلَمَنَّ ٱلۡكَـٰذِبِینَ﴾ [العنكبوت ٣]

وفي الحقيقة إن هذا لأعظم وقت لامتحان قوة إيمان المؤمن بالقدر خيره وشره، وهذا الموقف ميزان لتمييز القوي من الضعيف فبقدر رسوخ الإيمان وإحكامه ينزل البلاء، يقول النبي ﷺ "أشدُّ الناسِ بلاءً الأنبياءُ ثم الأمثلُ فالأمثلُ، يُبتلى الرجلُ على حسبِ دِينِه، فإن كان دِينُه صلبًا (وفي رواية فمن ثَخُنَ دينُه) اشتدَّ بلاؤُه، وإن كان في دِينِه رِقَّةٌ، ابتُلِيَ على حسبِ دِينِه، (وفي رواية ومن ضعُف دينُه ضَعُف بلاؤه) فما يبرحُ البلاءُ بالعبدِ حتى يتركُه يمشي على الأرضِ ما عليه خطيئةٌ"
أخرجه الترمذي (٢٣٩٨) وغيره وصححه الألباني في صحيح الجامع (٩٩٣)

وقال: "إنَّ عِظمَ الجزاءِ مع عِظمِ البلاءِ، وإنَّ اللهَ إذا أحبَّ قومًا ابتَلاهم، فمَن رَضي فله الرِّضى، ومَن سخِط فله السَّخطُ"
أحرجه الترمذي
وحسنه الألباني في صحيح الترمذي ٢٣٩٦ •


*الموقف الرابع:* التأمل في حال من أصابه بلاء أشد وأعظم مما أصيب به فهذا الموقف سيخفف عنه ما يجده من برحاء المصيبة وشدتها، وليتذكر أعظم مصيبة حلت بكل مسلم على الإطلاق وهي وفاة سيد الأنبياء والمرسلين نبينا محمد ﷺ وليتعظ من أولئك الصحابة الذي صبروا وتصابروا في ذلك الموقف الهائل الرهيب....

*الموقف الخامس:* أن يعلم أن تلك المصيبة أيضا نعمة عظيمة وفيها خير وبركة، كيف ولا؟! وبها ترفع درجاته وتكفر سيئاته، سبحان الله!
يقول النبيﷺ: "إذا أرادَ اللَّهُ بعبدِه الخيرَ عجَّلَ لَه العقوبةَ فِي الدُّنْيا..."
أخرجه الترمذي (٢٣٩٦)
وصححه الألباني في صحيح الترمذي ٢٣٩٦

وأعظم حديث في هذا الباب ما أخرجه البخاري مرفوعا عن النبي ﷺ قال: "ما يُصِيبُ المُسْلِمَ، مِن نَصَبٍ ولا وصَبٍ، ولا هَمٍّ ولا حُزْنٍ ولا أذًى ولا غَمٍّ، حتّى الشَّوْكَةِ يُشاكُها، إلّا كَفَّرَ اللَّهُ بها مِن خَطاياهُ".
صحيح البخاري ٥٦٤١ •

 عن جابر بن عبدالله: أنَّ رَسولَ اللهِ ﷺ، دَخَلَ على أُمِّ السّائِبِ، أَوْ أُمِّ المُسَيِّبِ فَقالَ: ما لَكِ؟ يا أُمَّ السّائِبِ، أَوْ يا أُمَّ المُسَيِّبِ تُزَفْزِفِينَ؟ قالَتْ: الحُمّى، لا بارَكَ اللَّهُ فِيها، فَقالَ: لا تَسُبِّي الحُمّى، فإنَّها تُذْهِبُ خَطايا بَنِي آدَمَ، كما يُذْهِبُ الكِيرُ خَبَثَ الحَدِيدِ.

صحيح مسلم ٢٥٧٥ •


الله أكبر! يقول بعض السلف: لولا المصائب لوردنا القيامة مفاليس!

قد ينعم الله بالبلوى وإن عظمت
ويبتلي الله بعض القوم بالنعمِ

*الموقف السادس:* وأخيرا ليعلم أن كل ما ورد في علاج المصاب من نصوص فهو يرجع إلى أصل عظيم: وهو أن يتحقق العبد أن نفسه وأهله وماله وولده في الحقيقة مِلكٌ لله عز وجل قد جعله عند العبد عارية فإذا أخذه منه فإنما أخذ ملكه وعاريته من المستَعير ، وأيضا فإن ذلك الملك محفوف بعدَمَين : عدَم قبله وعدَم بعده. وملك العبد له متعة معارة في زمن يسير وأيضا فإنه ليس هو الذي أوجده عن عدَمٍ حتى يكون ملكه الحقيقي ولا هو يستطيع حفظه من الآفات فليس له فيه تأثير ولا نفوذ ، وأيضا فإنه متصرف فيه بالأمر تصرف المملوك المأمور المُنهى ، لا تصَرُّفَ المالك ، فلا يجوز أن يتصرف فيه إلا كما يرضى مالكه الحقيقي سبحانه و تعالى.....

فيا أيها المؤمن كلما نزل بك البلاء تجلد واصبر وأظهر الرضا وإياك أن تضعف أمام أهلك وولدك وخاصتك لأن ذلك يضعفهم وينزل الخوف في رُوعهم بل اعطهم الأمان وكن أنت المعَزِّي لهم ثم إذا خلوت بربك فبث همك وأرسل دمعتك وأخرج أحزانك!
وإذا اشتدت بك الحال فاهرع إلى الصلاة فهي قرة العين وعفر جبهتك بالأرض ساجدا خاشعا وابك سائلا ربك أن يرفع بلاءك وأن يصبرك يقول تعالى: واستعينوا

تأمل أيها المصاب كما أن الله قد أخذ منك وابتلاك فقد منحك الكثير من النعم وحفظ عليك أنواعا من الخيرات التي تجلب لك السرور والسعادة وأعظم ذلك نعمة الإيمان والهدى ومعرفة الحق فإن حمدت الله على ذلك كل ثانية ما وفيت حمده سبحانه وتعالى
فقابل بلاءك بالرضا والشكر وقل الحمد لله على كل حال فهذا من كمال الإيمان تبلغ به منزلة الأولياء والأصفياء وحين يمتلئ قلبك وروحك بنور الإحسان والرضا واليقين وتتعلق جوارحك وحركاتك بالله .....
هذا!
وفي الختام نسأل الله أن يفقنا للصبر عند أول صدمة ...

مقال مستفاد من كتب لم نذكرها.... لأنه كان في الأصل خطبة...

حالنا مع لسان ديننا


إنني أخشى أن ينقص من قلبك حب الله والرسول والإيمان بهما!!
فلا أريد أن تفضل الإنجليزية على العربية; حتى تخرج عقب صلاة العصر مع سرعان القوم، وتعدو عدوا سريعا كأن نعيم الجنة تزلت في الأرض، وتجري خوفا أن تحرم من التنعم بها!.

كيف تركت القرآن والحديث، وفضلت تعلم كتب اليهود، والنصارى، والكفار، وأعداء الإسلام، والمسلمين؟! أوصلت اللغة الإنجليزية إلى مثل هذه القمة العليا؟! من متى؟ وكيف؟... هل بلغت لغة من لا يعرف كيفية الاستنجاء إلى هذا المبلغ من الحلاوة والفضيلة! ؟
عجبا!!

والله إنني أخاف خوفا شديدا أن ينجح أعداء الله في افتراسك بنصب أشراك الغزو الفكري! يا الله! كاد القلب ينشق! كيف تظهر عليهم، والإيمان في فؤادك يتمزق؟.

قال الله: "ولا تنهنوا ولا تحزنوا وأنتم الأعلون إن كنتم مؤمنين".
كيف يبقى الإيمان في قلبك، وقد هجرت القرآن والسنة; وكيف لا تهجرهما وأنت هدمت الباب الذي تلج منه إليهما! ; ألا وهو علوم اللغة العربية...
كيف ترد شكوك الأعداء وشبهاتهم، وأنت خاوي الذهن كيف تخدم الإسلام وأنت أجوف!!.

تدعي بأنك سلفي وما أدراك ما السلفية؟! ... كلا والله لا يخلق بك أن تنتمي إليها - وأنت لست قائما عليها كافة - ولا شروى نقير وقطمير!
تعد نفسك في زمرة ورثة الأنبياء... هيهات هيهات.... كم تملك من ميراثهم!؟.

ما أشنع الأمر أن تعلق الحائطية الأردية في أسبوعين، والعربية بعد شهر كامل أو أكثر!. بل وقد لا يشبع بطنك فتوشح جدار غرفتك، وتزينه بكلماتك المعجزة التي تصور أنك أكبر كاتب ألمعي، وأديب عبقري على وجه الأرض!!...
ما أقبح الحال أن تعقد حفلة المشاعرة بالأردية، وترمي العربية في المزبلة!!. بل وبعد كل هذا تشعر بأنك متعطش إلى المزيد; فتروي غلتك بعقد حفلة أخرى في الغرفة!.

وعندما تحين نوبة الخطابة الأسبوعية في اللغة الأردية تطير في السماء، وتهز المجلس، وتطربهم. كالأسد تصم آذانهم بزئيرك، وتخطف أجسادهم بحركات يديك، وتعمي أبصارهم بشعلة عينيك.
أما إن كانت في اللغة العربية فسلام عليها! ...
كأنها جبل سقط على رأسك فاسثقلته... تقف بالمنصة حائرا مذعورا تصير كالقط; لا يسمع صوتك بل تعي وتتقعقع... وتختلط عليك الجمل حتى نصوص القرآن والسنة لا تقدر على أداء مخارجها وإظهار حركاتها فطالما يتغير المعنى وينحرف إلى معنى آخر. كأنك تصحفها... والعياذ بالله!

شد ما يقلقني هذا الموقف المبكي الحزين وتؤسفني هذه الحالة المؤلمة.!!
على الإنسان أن يحفر الأرض ويقبر فيها قبرا لا حياة بعده!!
أراك تحرك شفتيك كأنك تقول : كلام قاسي لا والله ولكن الحق كالفاس!
لقد أحسن من قال : إن الحق ثقيل مريء وإن الباطل خفيف وبيء..
من اليوم تدارك ما فعلت في زمن غبر وإلا ستحوجني إلى م لا يتأخر...... 

هل تجد مثلها؟

*هل تجد مثلها*

كلا والله! فإن من ازدانت بصفات الكمال جديرة بأن تتنزه عن المثيل وإن من تزينت بخلال الحسن والجمال خليقة بأن يفتتن بها الناس قاطبة

(أراك تتمتم شيئا؛ لعلك تريد معرفتها، مهلا! حتى نمتعك قليلا)

أما شكلها فقد عجزت أساليب الشعراء والأدباء عن وصفه .... فتان خلاب...لا يشبع الزائر من التقاط صورها فتراه مرة يلتقط من جانب وأخرى من جانب؛ حتى لا ينساها طوال عمره،

وأما لونها فأبيض ناصع لا يشوبه أي سواد؛ كأن اللبن أفيض عليها.
وأما حسن هندامها فحدث عنه ولا حرج! يدهش الناظر من رشاقة قوامها و

لا يشتكي منها قصر ولا طول

وأما جسمها فيا الله! تفوح منه عطور الورود والرياحين، إذا شممتها أحسست عرف الجنة، وإذا هبت الريح حول جنباتها آضت إلى نسيم الصبح الناعش فتملأ الأرجاء طيبا ذكيا

فتن بها الصغار والكبار والرجال حتى النساء! بل افتدين لها النفس والنفيس.
والعجب العجاب أن جمالها شب العلماء والعباد المتبتلون وكانوا أكثر عشقا بها... فما السحر الذي أودع في هذه المخلوقة وأي مغناطيس هذا الذي جذب هؤلاء. حتى إنهم يودون لو يضمونها إليهم ثم يشدون عليها إلى أن تفيض أرواحهم ويفنوا فيها....

الكل يريد وصالها ولقاءها ولكن غيرتها ونخوتها لا تسمح بأن تعرض عرضها على كل من هب ودب إنها تضن على شرفها أكثر من صاحباتها وزميلاتها وإن لم تعتبرهن أترابا لها فتراها ترد جل خطبائها وتلغي طلباتهم.

تختار عاشقا يظهر من أسارير وجهه أنه سيخلص لها المودة ويموت في حبها ويحيى بحبها يدرك أسرارها وخباياها ويعرف ذات نفسها وسريرة قلبها من غير أن تبثها، يغار عليها ويعظم حرمتها ويحسبها قرة عينيه ووقيد ناظريه.

فهذا هو الذي ينعم بجوارها ويتلذذ بجانبها فكأنه ظفر بحور العين وهي دنياه وأخراه
وما له عنها حم ولا رم ولا له منها بديل ولا عديل، يسود وجهه إن فارقها زمنا، ويشحب جسمه إذا نأى عنها طويلا يتمنى لو أخلد في هذا الحب الطاهر الذي ليس فيه شائبة من شهوة أو غريزة أبدا يتمنى الخلود على الأقل حياته الكاملة ولكن يسبقه القدر وينقطع عنها بعد مدة محدودة .

فانظر إلى سعة صدرها ورحب باعها كيف تتفضل على كل رقيبها المخلص ولا تخيب أمله ورجاءه وتعطيه فرصة لإطفاء نار الهوى وإخماد لظاها قبل أن تودي به.

فياله من حب شريف! وياله من عيش لذيذ! ما أطيب صفوته ترى الناس إنا يحسدون على حبيبها أو يغتبطون به ذلك هو السعيد حقا وقد خاب من لم يهده الحظ التاعس إلى وصالها۔

آهٍ على شقاءه!

أبلغوه: أن الحب يستقضي أن يخضع بين يديه ؛ هكذا الدنيا إن ارتميت بنفسك على قدميها مرة سعدت ما دمت حيا..

أخالك تتهامس :"حلم مستحيل"!!

لتبك على عقلك البواكي إنها جامعتك يا أبله "الجامعة السلفية"

فهي هي هل تجد مثلها!؟

هذه القصة أزلية و ستكون أبدية ما لم تتبدل الأرض غير الأرض والسماوات..

الثلاثاء، 10 مارس 2020

الفرق بين طلاب السلف وطلاب الخلف

#الفرق_بين_طلاب_السلف_وطلاب_الخلف

# كانوا يعيشون بالكفاف ويعتمدون على القناعة. فيجدون سعادة روحانية وإن كانوا أشقياء في الظاهر.

# ونحن نعيش عيشة لم يعشها الملوك على ما مضى من التاريخ، ولا نجد حقيقة السعادة لأننا فقدنا أسبابها.

# كانوا لا يأكلون ولا يشربون إلا بالقدر الذي يسد جوعتهم وغلتهم.

# ونحن مشهورون بالبطنة والشره ونستمر في الابتلاع إلى أن نتيقن بسد الحلق.

# لذلك كانوا يتمتعون بالنشاط والخفة والقوة الجسمية ويقل ذهابهم لقضاء الحاجة وللعلاج الطبي فما كانت تصيبهم الأمراض والأسقام إلا قليلا، بل في أواخر أعمارهم غالبا، وذلك وفر لهم الوقت الكثير.

# ولكن تسرب الكسل والخمول في أجسامنا، وكثر قضاء حاجاتنا، وزيارتنا للمستشفيات. وصرفنا المال والوقت للعلاج على أيدي الأطباء.

# فكان لا يقرع النوم باب أعينهم إلا قليلا. 

# ونحن لثقل بطوننا ننام ثلثي الوقت من أربع وعشرين ساعة.

# ولنشاط جسومهم كانوا يسهرون الليالي على التوالي.

# ولكن هيهات هيهات فلم نستطع إلى ذلك سبيلا.

# كانوا لا يأخذون من الدنيا إلا ذلك النصيب الذي لا حياة إلا به، ويُحسنون بما بقي على ذووي الحاجة. فكانت أشغالهم الدنيوية ضئيلة قليلة.

# أما نحن فيضيع معظم أوقاتنا في إعداد الطعام وتنظيف الملابس وتطهير الأبدان وترجل الشعر والتعهد بحسن المنظر وإن كان الباطن نجسا.

# فكانوا يجدون فراغا طويلا في اليوم والليلة، ويغتنمونه في العكف على القراءة والمطالعة أو الكتابة والمباحثة.

# ونحن مقيدون بأغلال الأشغال طوال اليوم واليل

# كانوا مخلصين في طلبهم فاجتهدوا طول السنة، كما أنهم كانوا أحرارا في سبيل طلب العلم فما كان هناك ضغط الاختبارات وخوف الفشل في المسابقات.

# ونحن نشتغل بالعلم عندما يسيطر علينا خوف الاختبارات ثم نعود إلى حيث كنا من اللهو واللعب طول السنة.

# بل كانوا يطلبون العلم طول العمر لأنه ما كانت لديهم هذه القوانين المدرسية أو الجامعية، وكانت الوثيقة التي يعتمدون عليها في الشهادة بالرسوخ وعلو الكعب هي "الجرح والتعديل" وأنت تعرف قواعدهما وضوابطهما!

# ولكن يصير أحدنا عالما بنيله شهادة عالمية في اثنتي عشرة سنة أو علامة بإحرازه شهادة الدكتوراة في عشرين سنة وهما شهادتي الزور والباطل ، ثم بعد ذلك يسلم رجليه إلى الرياح الأربعة ويعتقد أنه لا حاجة به إلى أكثر مما طلب!

# كانوا يحضرون الحلق والدروس ويطلبون العلم على أجل العلماء لذلك كانوا يكثرون الأسفار والرحلات، كانوا يفهمون معنى: "من تفقه من بطون الكتب ضيع الأحكام" 
و "من كان شيخه كتابه ، كان خطؤه أكثر من صوابه" وقول ابن مسعود رضي الله عنه:
( ولا يزال الناس بخير ما أخذوا العلم عن أكابرهم وعن أمنائهم وعلمائهم فإذا أخذوه عن صغارهم وشرارهم هلكوا) اھ . وإذا أبى الله أن يصطفي حاملي وحيه إلا في الأربعينات فعار لهذا العلم الذي هو ميراث الأنبياء أن يرثوه الأصاغر والمتطفلون! هذه ذلة وخزي لهذا الكنز الغالي الثمين الشريف المطهر.

# وصار التعلم في زماننا مقيدا بالفصول والصفوف ندرس وقتا معينا، ثم يذهب الباقي سدى ويضيع في أدراج الرياح! ثم إننا نتعلم على أيدي بعض الشيوخ المخصوصين وللأسف يكون أكثرهم جاهلين. والله إن العلم أجل وأعظم من أن يشهد به الجاهلون وأشرف وأعز من أن يذكر به السفهاء وأطهر وأقدس من أن يدنس بعزوه إلى الهمل من دهماء الناس.
وكذلك لا نتشرف بأخذ العلم عن عدد كبير من العلماء والأئمة بالرحلة والسفر فذاك باب مغلق! فإنا لله وإنا إليه راجعون. 

# في معظم الأوقات كانوا يتعلمون لدى الشيوخ في المساجد بيوت الله التي تنزل فيها الرحمة والبركة والسكينة والتي هي أشرف الأمكنة على وجه الأرض، لكن أحيانا كانوا يدرسون عليهم في البيوت لعذر مبرر.

# ولكن بالرغم مما وردت فضائل كثيرة في نصوص القرآن والسنة للمساجد تركناها وهجرناها فصارت مخصوصة للصلاة فقط لا للعلم الذي يعرف به كيفية أدائها!!!

والله إنني لأجزم وأقطع بأننا لم نشعر بلذة العلم التي كان السلف شعروا بها ولم نصل إلى روحه مثلما وصلوا إليها إلا لهذه الأسباب!!

ولله در مالك رحمه الله حيث قال: "لن يصلح آخر هذه الأمة إلا بما صلح به أولها"

#هيا_للعودة_إلى_ما_كان_عليه_السلف

إعداد: 
عبد العزيز بن محمد يوسف بن محمد عمر المالدهي

للقراءة في الفيسبوك اضغط:
الفرق بين طلاب السلف وطلاب الخلف

الجمعة، 21 فبراير 2020

خطیب جمعہ کے لئے بعض اہم ہدایات وتنبیہات


خطیب جمعہ کے لئے بعض اہم ہدایات وتنبیہات

١: منبر پے بیٹھنے سے پہلے سلام کرنے کے تعلق سے ہمارے علم میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے ۔۔۔۔ واللہ اعلم، اگر ہے تو علی الرأس والعين.

٢: اذان کا جواب دیں، درود شریف اور ختم اذان کی دعا پڑھیں

٣: پھر کھڑے ہوکر خطبہ حاجہ پڑھنے لگیں اس کے کلمات ہیں: "إن الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا من يهده الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله" ﴿یَأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِۦ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسۡلِمُونَ﴾ ﴿یَـٰۤأَیُّهَا ٱلنَّاسُ ٱتَّقُوا۟ رَبَّكُمُ ٱلَّذِی خَلَقَكُم مِّن نَّفۡسࣲ وَ ٰ⁠حِدَةࣲ وَخَلَقَ مِنۡهَا زَوۡجَهَا وَبَثَّ مِنۡهُمَا رِجَالࣰا كَثِیرࣰا وَنِسَاۤءࣰۚ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ ٱلَّذِی تَسَاۤءَلُونَ بِهِۦ وَٱلۡأَرۡحَامَۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلَیۡكُمۡ رَقِیبࣰا﴾ ﴿یَأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَقُولُوا۟ قَوۡلࣰا سَدِیدࣰا ﴾ ﴿یُصۡلِحۡ لَكُمۡ أَعۡمَـٰلَكُمۡ وَیَغۡفِرۡ لَكُمۡ ذُنُوبَكُمۡۗ وَمَن یُطِعِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِیمًا﴾ أما بعدُ: فإن خير الحديث كتاب الله وخير الهديِ هديُ محمد ﷺ وشر الأمور محدثاتها وكل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة وكل ضلالة في النار 
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم (اس کے بعد کچھ آیات تلاوت کیجئے)

٤: آپ سورہ ق تلاوت کرسکتے ہیں لیکن اگر پڑھنا ہے تو پوری سورت پڑھیں!! یہی سنت ہے نہ کہ آدھی سورت پڑھیں! دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ سورہ ق پڑھتے ہیں تو سامنے والے اس کے معانی ومفہوم نا کے برابر ہی سمجھ پائیں گے! اسلئے بہتر یہی ہے کہ دوسرے آیات جو موضوع کے متعلق ہیں ان کی تلاوت کریں تا کہ آپ خطبہ میں ان کا ترجمہ کرسکیں! لیکن اگر سورہ ق پڑھنا ہے تو اس کا ترجمہ بھی ضروری ہے (ہاں! ایک دن خاص کرلیجئے کہ اس خطبہ میں صرف سورہ ق ہی پر خطبہ دیں گے اور ایک ایک آیت پڑھ پڑھ کر اس کا ترجمہ و تفسیر کریں گے تو بہہہت ہی بہتر ہوگا)۔

٥: آپ حمد ونعت یا شعر و اشعار پڑھتے ہیں جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھنا ثابت تو نہیں ہے لیکن اگر موضوع کے ٹھیک مطابق کچھ چند اشعار پڑھتے ہیں تو کوئی بات نہیں لیکن اس پر زیادہ ٹائم نہ دیں صرف ایک دو منٹ!!! اور ہر دن نہ پرھیں یہاں زیادہ سے زیادہ نصوص قرآن وحدیٹ پڑھیں تاکہ سامعین کو تعلیم حاصل ہو۔ اور یہی خطبہ کا اصل مقصد ہے۔

٦: آپ خطبہ حاجہ کو، یا کبھی کبھار سور دیکر گنگنا کر خطبہ دیتے ہیں! ایسا نہ کریں! صرف قرآنی آیات کو سُور اور نغمہ کے ساتھ پڑھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تو انکے چہرے لال پیلے ہوجاتے غصہ سے انکی آواز بلند ہوجاتی اور ان کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں اور غصہ زیادہ ہو جاتا گویا وہ لشکر کو ڈرانے والے ہیں" (مسلم) 
حرام تو نہیں کہا جاسکتا! لیکن نبی کی سنت اولی واعلی ہے۔

٧: اس کے بعد آپ سیدھے موضوع پے آئیں، آپ پتا نہیں پھر دوبارہ بنغلہ زبان میں حمد وصلاۃ پڑھتے ہیں اور سامعین کو الحمد للہ کہنے کو کہتے ہیں! دیکھئے یہ سب حرام تو نہیں ہے لیکن اللہ کے رسول کی سنت زیادہ افضل اور اعلی ہے اسے ہمیں اختیار کرنا چاہیے۔ اور اس میں وقت کی بھی بچت ہے جس سے آپ موضوع کی وضاحت اچھی طرح کرسکتے ہیں۔ 

٨: خطبہ کا اصل مقصد ہے وعظ ونصیحت تعلیم وتربیت اور ترغیب وترہیب ، تزکیہ نفس لوگوں کو شرک وبدعات کی جانکاری دینا تاکہ وہ ان سے پچے رہیں۔

٩: دیکھا جاتا ہے کہ آپ شاید زیادہ تیاری کرکے نہیں آتے ہیں، موضوع بھی شاید کہ کبھی کبھار منتخب کرتے ہیں! دیکھئے چچا یہی ایک دن تو ہمیں ملتا ہے عوام کے سامنے کچھ باتیں رکھنے اور بولنے کے لئے برائے مہربانی اسے غنیمت جان کر اس کا بھر پور استعمال کریں، زیادہ سے زیادہ قرآن وحدیٹ پڑھیں اور ان کا ترجمہ وتفسیر کریں، احکام سکھائیں، افسوس تو اس وقت ہوتا ہے کہ جب دیکھتا ہوں کہ ہم جیسے مولوی رہتے ہوئے بھی لوگوں کو صحیح سے سنت کے مطابق وضو اور نماز پڑھانا نہیں سکھاتے ہیں، آپ ﷺ تو منبر پر دو رکعات نماز پڑھ کے لوگوں کو سکھاتے تھے کہ ایسے ہی نماز پڑھو، لوٹے میں پانی لے کر لوگوں کی نظروں کے سامنے وضو کرتے تاکہ صحابہ اسی طرح وضو کریں!۔ (بخاری و مسلم)

١٠: آپ کو یہ بھی بتا دوں دونوں خطبہ (خطبہ اولی خطبہ ثانیہ) میں تقریر کرنا نبی کی سنت ہے خطبہ اولی میں کچھ بولئے پھر خطبہ ثانیہ میں بھی کچھ بولیں ایسا نہیں کہ پہلے خطبہ حاجہ پڑھکے بیٹھ جائیں اور خطبہ ثانی میں تقریر کریں! نہیں! ایسا نہیں کرنا چاہئے یہ سنت سے ثابت نہیں ہے۔

۱١: اور یہ بھی جان لیجئے خطبہ اولی میں ہی آپ کو خطبہ حاجہ کے کلمات بولنے ہیں!!!! اس کی طرف بہت دھیان دیجئے گا ، صحیح حدیث میں صرف اتنا کہا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف شروع میں خطبہ حاجہ پڑھتے تھے ، خطبہ ثانیہ میں دوبارہ ان کلمات کو دوہرانا ثابت نہیں ہے۔ اللہ اعلم۔۔۔ اگر کوئی صحیح حدیث ہمیں مل جائے تو سر تسلیم خم کریں گے ان شاء اللہ ۔

۱٢: اور یہ بھی جان لیجئے کہ خطبہ اولی ختم کرنے کے لئے کوئی بھی دعا یا آیت ثابت نہیں ہے، مطلب آپ تقریر کرتے کرتے ہی مناسب وقت میں بیٹھ جائیں گے۔

۱٣: پھر بیٹھنے کے بعد بھی کوئی دعا یا کچھ بھی پڑھنا ثابت نہیں ہے بس ایسے ہی خاموش تھوڑی دیر بیٹھے رہیں گے (نسائی)

١٤: پھر جب خطبہ ثانیہ کے لئے کھڑے ہوں گے تو ڈائرکٹ موضوع پے بات کریں گے نہ کہ پھر سے حمد و صلاۃ پڑھیں گے!! (نسائی)

۱٥: خطبہ ثانیہ میں بھی کچھ بولیں۔

۱٦: اور یہ بھی جان لیجئے کہ تقریر ختم کرنے کے لئے صرف یہی دعا ثابت ہے ابن عمر سے : "أقول هذا وأستغفر الله لي ولكم" سلسلة الأحاديث الصحيحة للألباني (رقم: ٧١٩) 

١٧: کبھی کبھار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا بھی کرتے تھے لیکن کوئی خاص وقت نہیں جب بھی چاہتے شروع میں، بیچ میں، اخیر میں۔ کوئی متعین وقت نہیں ہے دعا کرنے کے لئے، متعین کرنا بدعت ہے! لیکن حالات کے اعتبار سے دعا کرنا افضل ہے۔ (بخاری و مسلم) اور خطبہ شروع کرنے سے لیکر سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے تک اللہ تعالی دعا قبول کرتا ہے (بخاری مسلم ابو داود ونسائي)

١٨: اخیر میں سلام کرنا بدعت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔

١٩: خطبہ کو درمیانی رکھنا سنت ہے نہ زیادہ لمبا نہ زیادہ مختصر۔ (مسلم، ابو داود)

۲٠: نماز کو لمبی کرنا سنت ہے (مسلم)

والله تعالى أعلم بالصواب

عبد العزيز بن محمد يوسف بن محمد عمر المالدهي 
السنة الثانية لكلية الحديث الشريف بالجامعة السلفية ببنارس، الهند